عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جس نے لوگوں کی امامت کی اور وقت پر اسے اچھی طرح ادا کیا تو اسے بھی اس کا ثواب ملے گا اور مقتدیوں کو بھی، اور جس نے اس میں کچھ کمی کی تو اس کا وبال صرف اسی پر ہو گا ان (مقتدیوں) پر نہیں“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 580]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 47 (983)، (تحفة الأشراف: 9912)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/145، 154، 156) (حسن صحیح)»
الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 580
فوائد و مسائل: اگر امام بےوضو یا جنبی ہو یا اس کے کپڑوں پر نجاست لگی ہو اور اس طرح وہ نماز پڑھا دے تو مقتدیوں کی نماز بالکل صحیح اور بالکل درست ہے، البتہ امام کے لیے نماز دوہرانا ضروری ہے، جیسا کہ: دلیل ابوعلی الہمدانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں سفر کے لیے نکلا، ہمارے ساتھ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ ہم نے آپ سے کہا: اللہ آپ پر رحم کرے! آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ہیں، آپ ہماری امامت کریں، اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے: «من امّ النّاس، فاصاب الوقت و اتم الصّلاة فله ولهم، ومن انتقص من ذلك شيا فعليه ولا عليهم۔» ”جو آدمی لوگوں کی امامت کرے، وقت کو پائے اور کامل نماز پڑھے تو اس کے لیے بھی کافی اور ان کے لیے بھی کافی ہو گی اور جو اس میں کچھ کوتاہی کرے، اس کے خلاف وبال ہو گی، جبکہ مقتدیوں کے لیے کافی ہو گی۔“[مسند الامام احمد: 201، 156، 154، 145/4 سنن ابي داود: 580، سنن ابن ماجه: 983، وسنده حسن] ↰ اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ [1513]، امام ابن رحمہ اللہ [2221] اور امام حاکم رحمہ اللہ [213، 210/1] نے ”صحیح“ کہا ہے۔ ↰ عبدالرحمن بن حرملہ نے اس روایت میں ابوعلی الہمدانی سے سماع کی تصریح کر رکھی ہے۔ [سنن الکبرٰی للبیھقی: 147/3] ↰ نیز عبدالرحمن بن حرملہ المدنی جمہور محدثین کے نزدیک ”حسن الحدیث“ ہے۔
موثقین: ➊ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کہتے ہیں: «ثقة، روي عند يحييٰ القطان نحو منة حديث» ”یہ ثقہ، راوی ہیں، ان سے یحییٰ القطان نے تقریباً سو احادیث روایت کی ہیں۔“[الكامل لابن عدي: 310/4 وسنده صحيح] ➋ امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «لا باس به»”ان میں کوئی خرابی نہیں۔“ ➌ امام نمیر نے ”ثقہ“ کہا ہے۔ [تهذهب التهذيب لابن حجر: 147/6] ➍ امام ساجی کہتے ہیں: «صدوق، يهم فى الحديث»”سچے ہیں، حدیث میں (کبھی) وہم کھا جاتے ہیں۔“[تهذهب التهذيب 147/6] ➎ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «ولم ار فى حديثه منكرا۔»”میں نے ان کی حدیث میں کوئی منکر حدیث نہیں پائی۔“[الكامل لابن عدي311/4] ➏ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے انہیں «اثقات» میں ذکر کیا اور فرمایا ہے: «كان يخطيء»”یہ غلطیاں کرتے تھے۔“ ↰ امام صاحب کا یہ قول جمہور کی توثیق کے مقابلہ میں ناقابل التفات ہے۔ خود امام ابن حبان رحمه الله نے اس کی حدیث کی ”تصحیح“ کر کے رجوع ثابت کیا ہے۔ ➐ امام احمد حنبل رحمہ اللہ سے یزید بن عبد اللہ بن قسیط ”ثقہ“ اور ابن حرملہ کے بارے میں پوچھا: گیا تو آپ نے فرمایا: «ما اقربهما۔»”دونوں کتنے قریب ہیں۔“ ➑ امام مسلم رحمہ اللہ نے ان سے متابعتاً راویت لی ہے۔ ➒ ➓ امام ابن خزیمہ رحمہ الله [1513] اور امام حاکم رحمہ الله [210/1] نے اس کی حدیث کی ”تصحیح“ کی ہے۔ یہ ضمنی ”توثیق“ ہے۔ «تلك عشرة كاملة!»”یہ پوری دس توثیقیں ہیں۔“
جارحین: ➊ امام یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ کے بارے میں ہے کہ: «فضعفه، ولم يدفعه»”انہوں نے انہیں ضعیف کہا لیکن بالکل چھوڑا نہیں۔“[الجرح و التعديل لابن ابي حاتم: 223/5] اوّلا: یہ قول جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل التفات ہے۔ ثانیاً: اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اعلی درجہ کے ثقہ نہیں ہیں، اس کی دلیل یہ ہے کہ: ◈ امام یحییٰ بن سعید القطان خود فرماتے ہیں: «محمدبن عمرو احب الّي من ابن حرملة» ”محمد بن عمرو بن علقمہ مجھے ابن حرملہ سے زیادہ محبوب ہے۔“[الجرح والتعديل 223/5، وسنده صحيح] محمد بن عمرو بن علقمہ امام یحییٰ بن سعید القطان کے نزدیک ”ثقہ“ ہیں۔ ◈ دوسری دلیل یہ ہے کہ امام علی بن المدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «فراددتّ يحييٰ فى ابن حرملة، فقال: ليس هو عندي مثل يحييٰ بن سعيد الانصاريّ۔» ”میں نے ابن حرملہ کے بارے میں یحییٰ القطان سے رجوع کیا تو انہوں نے فرمایا، میرے نزدیک وہ یحییٰ بن سعید انصاری جیسا (بڑا امام) نہیں ہے۔“[الجرح والتعديل لابن ابي حاتم: 223/5] ثالثاً: اس قول سے راوی کی عدالت ختم نہیں ہو گی، کیونکہ امام یحییٰ بن سعیدالقطان خود اس سے روایات لیتے ہیں، لہذا یہ قول ان کے نزدیک حافظے کے ”ضعف“ پر محمول کریں گے۔ رابعاً: یہ بھی احتمال ہے کہ یہ قول امام یحییٰ بن سعید القطان کے نزدیک منسوخ ہو، دیگر الفاظ اس کے ناسخ ہوں۔ خامساً: امام یحییٰ بن سعید القطان نقد رجال میں بہت زیادہ سختی سے کام لیتے تھے، جیسا کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: «كان يحييٰ بن سعيد متعنتا فى نقد الرجال، فاذا رايته قد و ثق شيخا، فاعتمد عليه، اما اذا لين احدا فتانّ فى امره حتّي فري قول غيره فيه، فقد لين مثل اسرايل و همام و جماعة احتج بهم الشيخان….» ”امام یحییٰ بن سعید نقد رجال میں بہت سخت تھے، جب آپ دیکھیں کہ انہوں نے کسی شیخ کو ”ثقہ“ کہا ہے تو ان پر اعتماد کر لیں، لیکن جب وہ کسی کو کمزور قرار دیں تو اس کے بارے میں غور و فکر کریں، حتی کہ اس کے بارے میں دوسرے محدثین کے اقوال دیکھ لیں، کیونکہ انہوں نے اسرایل، ہمام اور بہت سے ان راویوں کو بھی کمزور قرار دے چھوڑا ہے، جن سے بخاری و مسلم نے حجت لی ہے۔“[سير اعلام النبلا: 558/9] ➋ امام ابوحاتم الرازی رحمه الله کہتے ہیں: «يكتب حديثه، ولا يحتج به۔» ”ان کی حدیث لکھی جائے گی، ان کی حدیث میں کبھی اضطراب بھی ہوتا ہے۔“[الجرح: 240/5] کسی راوی کی حدیث میں اضطراب اس کے لیے ضعف کا سبب نہیں، نیز جمہور نے عبدالرحمن بن حرملہ کی روایت کی ”تصحیح“ کر کے ثابت کر دیا ہے کہ یہ مضطرب نہیں ہے، پھر امام ابوحاتم الرازی کی عادت ہے کہ اسی قسم کے الفاظ بخاری و مسلم کے ثقہ راویوں کے متعلق بھی کہہ دیتے ہیں۔ [ديكهيں سيراعلام النبلاءللذهبي: 240/5] ➌ حافظ منذری رحمہ اللہ نے لکھا ہے: «لينه البخاري۔»”امام بخاری رحمہ اللہ نے انہیں کمزور قرار دیا ہے۔“[الترغيب والترهيب للمنذري] امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ قول عبدالرحمن بن حرملہ الاسلمی کے بارے میں نہیں، بلکہ عبدالرحمن بن حرملہ عم القاسم بن حسان کے بارے میں ہے، لہٰذا ان پر کلام غیر موثر ہے، کیونکہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے انہیں اپنی کتاب میں «تكلم فيه و هو موثق او صالح الحديث» میں ذکر کیا ہے۔ ◈ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (م 311ھ) اس حدیث پر تبویب کرتے ہیں۔ «والدّليل على انّ صلاة الامام قد تكون ناقصة وصلاة الماموم تامه، ضدقول من زعم انّ صلاة الماموم متّصلة بصلاة امامه، اذا فسدت صلاة الامام فسدت صلاة الماموم» ↰ یہ حدیث دلیل ہے کہ بسا اوقات امام کی نماز ناقص اور مقتدی کی کامل ہوتی ہے، (یہ حدیث) اس شخص کے خلاف ہے جس نے دعویٰ کیا ہے کہ مقتدی کی نماز امام کی نماز کے ساتھ متصل ہے، اگر امام کی نماز فاسد ہو گی تو مقتدی کی بھی فاسد ہو جائے گی…. [صحيح ابن خزيمة: 1513]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 580
580۔ اردو حاشیہ: امام کی ذمہ داری انتہائی اہم ہے، اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا متبع ہوتے ہوئے لوگوں کا مقتدا (پیشوا) بننا چاہیے، نہ کہ ان کی منشاء پر چلنے والا اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب وہ صاحب علم و فراست ہو صرف اللہ سے ڈرنے والا ہو۔ للٰہیت اور داعیانہ جزبات سے مملو ہو، گویا امام صاحب کی عزیمت بھی ہونا چاہیے اور اپنی ذمہ داری کو صحیح طریقے سے ادا کرنے والا بھی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 580
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث983
´امام کی ذمہ داری کیا ہے؟` ابوعلی ہمدانی سے روایت ہے کہ وہ ایک کشتی میں نکلے، اس میں عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ بھی تھے، اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا، ہم نے ان سے عرض کیا کہ آپ ہماری امامت کریں، آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں اس لیے کہ آپ صحابی رسول ہیں، انہوں نے امامت سے انکار کیا، اور بولے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جس نے لوگوں کی امامت کی اور صحیح طریقہ سے کی تو یہ نماز اس کے لیے اور مقتدیوں کے لیے بھی باعث ثواب ہے، اور اگر اس نے نماز میں کوئی کوتاہی کی تو اس کا وبال امام پر ہو گا، اور مقتدیوں پر کچھ نہ ہو گا۔“[سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 983]
اردو حاشہ: فائدہ: اس میں صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کی احتیاط اور ان کے ورع تقویٰ کا بیان ہے۔ کہ وہ کوتاہی کے ڈر سے دینی فرائض کی ذمے د اری لینے میں تامل کرتے تھے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 983