سہل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا دونوں جنت میں اس طرح (قریب قریب) ہوں گے“ آپ نے بیچ کی، اور انگوٹھے سے قریب کی انگلی، کو ملا کر دکھایا۔ [سنن ابي داود/أَبْوَابُ النَّوْمِ/حدیث: 5150]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5150
فوائد ومسائل: یعنی یتیم نابالغ لڑکی یا لڑکا جس کا والد فوت ہوگیا ہو معاشرتی زندگی میں اس کو اپنے گھر کا فرد بنا لینا اس کی سرپرستی کرنا اور اسے والد کی کمی محسوس نہ ہونے دینا بڑی عزیمت اور فضیلت کا کام ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5150
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1918
´یتیموں پر مہربانی اور ان کی کفالت کرنے کا بیان۔` سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں ان دونوں کی طرح ہوں گے ۱؎ اور آپ نے اپنی شہادت اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ کیا۔“[سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1918]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس سے اشارہ ہے یتیموں کے سرپرستوں کے درجات کی بلندی کی طرف یعنی یتیموں کی کفالت کرنے والے جنت میں اونچے درجات پر فائز ہوں گے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1918
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6005
6005. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سےبیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ”میں اور یتیم کی نگہداشت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے۔“ ہھر آپ نے شہادت والی اور درمیانی انگلی کو ملا کر اشارہ فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6005]
حدیث حاشیہ: یتامٰی اور بیوہ عورتوں کی خبر گیری کرنا بہت ہی بڑی عبادت ہے اس میں جہاد کے برابر ثواب ملتا ہے۔ حضرت سہل بن سعد ساعدی انصاری ہیں ان کا نام حزن تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہٹا کر سہل نام رکھا۔ سنہ91 ھ میں مدینہ میں فوت ہوئے یہ مدینہ میں آخری صحابی ہیں، (رضی اللہ عنه)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6005
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5304
5304. سیدنا سہل ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے۔“ پھر آپ نے شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا اور ان دونوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5304]
حدیث حاشیہ: ان جملہ احادیث میں اشارات کو معتبر گردانا گیا ہے۔ ان کی یہی وجہ مطابقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5304
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5304
5304. سیدنا سہل ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے۔“ پھر آپ نے شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا اور ان دونوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5304]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان میں اس امر کو بیان کیا تھا کہ گونگے آدمی کا اشارہ قابل اعتبار ہے، حد قذف اور لعان دونوں میں اس کا اشارہ مفید اور معتبر ہے۔ ان مختلف احادیث میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مواقع پر اشارے سے کام لیا ہے جبکہ آپ اس امر کی وضاحت اپنے ارشاد گرامی میں بھی کرسکتے تھے۔ (2) جب ایک قادر الکلام انسان کا اشارہ معتبر ہے تو وہ انسان جو قوت گویائی سے محروم ہے اس کا اشارہ کیوں معتبر نہیں ہوگا۔ اشارے کے سلسلے میں حدود اور دیگر احکام میں فرق کرنا بھی محض سینہ زوری ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لڑکی کے اشارے سے یہودی پر حد جاری کر دی تھی۔ (صحیح البخاري، الخصومات، حدیث: 2413) بہرحال اشارہ، لعان اور دیگر احکام میں قابل اعتبار ہے۔ والله أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5304
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6005
6005. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سےبیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ”میں اور یتیم کی نگہداشت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے۔“ ہھر آپ نے شہادت والی اور درمیانی انگلی کو ملا کر اشارہ فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6005]
حدیث حاشیہ: (1) اس سے معلوم ہوا کہ یتیم کی پرورش اور نگہداشت کرنے والے کا جنت میں بہت بلند درجہ ہوگا۔ واقعی یتیم کی خبر گیری کرنا بہت بڑی عبادت ہے۔ (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ابن بطال کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ جو انسان اس حدیث کو سنے اسے چاہیے کہ وہ اس پرعمل کرتے ہوئے کسی یتیم کی کفالت کرے تاکہ اسے جنت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت نصیب ہو۔ اس سے بڑھ کر اور کوئی مرتبہ نہیں ہے۔ (فتح الباری: 536/10)(3) ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں میں بہترین گھر وہ ہے جس گھر میں کوئی یتیم (زیرِ کفالت) ہو اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اور بدترین گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم (زیرِکفالت) ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک کیا جائے۔ “(سنن ابن ماجة، الأدب، حدیث: 3679) یتیم اپنی ضروریات کا مطالبہ اس طرح نہیں کر سکتا جس طرح بیٹا اپنے باپ سے ضد کر کے یا ناز کے ساتھ اپنی بات منوا لیتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ یتیم کی ضروریات اس کے مطالبے کے بغیر ہی پوری کی جائیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6005