ابوزمیل کہتے ہیں میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: میرے دل میں کیسی کھٹک ہو رہی ہے؟ انہوں نے کہا: کیا ہوا؟ میں نے کہا: قسم اللہ کی! میں اس کے متعلق کچھ نہ کہوں گا، تو انہوں نے مجھ سے کہا: کیا کوئی شک کی چیز ہے، یہ کہہ کر ہنسے اور بولے: اس سے تو کوئی نہیں بچا ہے، یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی «فإن كنت في شك مما أنزلنا إليك فاسأل الذين يقرءون الكتاب»”اگر تجھے اس کلام میں شک ہے جو ہم نے تجھ پر اتارا ہے تو ان لوگوں سے پوچھ لے جو تم سے پہلے اتاری ہوئی کتاب (توراۃ و انجیل) پڑھتے ہیں“(یونس: ۹۴)، پھر انہوں نے مجھ سے کہا: جب تم اپنے دل میں اس قسم کا وسوسہ پاؤ تو «هو الأول والآخر والظاهر والباطن وهو بكل شىء عليم»”وہی اول ہے اور وہی آخر وہی ظاہر ہے اور وہی باطن اور وہ ہر چیز کو بخوبی جاننے والا ہے۔ (الحدید: ۳)، پڑھ لیا کرو۔ [سنن ابي داود/أَبْوَابُ النَّوْمِ/حدیث: 5110]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5110
فوائد ومسائل: 1۔ دل میں آنے والے برے خیالات کو وسوسہ اور نیک خیالات کو الہام کہا جاتا ہے۔
2۔ وسوسہ اگرچہ بشریت کے لوازم سے ہے۔ مگر انبیاء ؑ اس بات سے معصوم ہیں۔ کہ اس قسم کےخیالات ان ک دل میں گھر کر جایئں۔ یا شک وشبہ کی حد تک پہنچ جایئں بالخصوص نبی ﷺ کے معجزہ شق وشرح صدر کے علاوہ وہ حدیث جس میں ہے کہ آپ کا قرین بھی اسلام قبول کرچکا ہے۔ وہ آپ کو خیر کےعلاوہ کچھ نہیں سمجھاتا۔ (صحیح مسلم، صفات المنافقین، حدیث 2814) اس عصمت نبوت کی موید ہے۔
3۔ سورہ یونس مذکورہ آیت 94 میں لفظا تو نبیﷺ مخاطب ہیں۔ مگر درحقیقت دوسروں کو سنانا مقصود ہے۔ جیسے کہ بعد کی آیت نمبر 103 میں ہے۔ (قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي شَكٍّ مِّن دِينِي)(یونس۔ ۔ ۔ 104) 4۔ شکوک واوہام کا علاج قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں موجود ہے۔ ضروری ہے کہ انسان بارسوخ اصحاب علم سے استفادہ کرتا رہے، اگر اس مرض میں غفلت کی جائے تو یہ (شک) ترقی کرکے (امتراء) جدل اور (امتراء) ترقی کرکے تکذیب تک جا پہنچتا ہے۔ والعیاذ باللہ (تفسیر عثمانی سورہ یونس)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5110