ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم سنو! (اور موسیٰ کی روایت میں یوں ہے، کہ جب آدمی کہے) کہ لوگ ہلاک ہو گئے تو وہی ان میں سب سے زیادہ ہلاک ہونے والا ہے ۱؎“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مالک نے کہا: جب وہ یہ بات دینی معاملات میں لوگوں کی روش دیکھ کر رنج سے کہے تو میں اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا، اور جب یہ بات وہ خود پر ناز کر کے اور لوگوں کو حقیر سمجھ کر کہے تو یہی وہ مکروہ و ناپسندیدہ چیز ہے، جس سے روکا گیا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4983]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/البر والصلة 41 (2623)، (تحفة الأشراف: 12623، 12741)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/27، 342) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مفہوم یہ ہے کہ جب کوئی شخص لوگوں کی عیب جوئی اور برائیاں برابر بیان کرتا رہے، اور اپنی زبان سے لوگوں کے فساد میں مبتلا ہونے اور ان کی ہلاکت و تباہی کا ذکر کرتا رہے گا تو ایسا شخص بسبب اس گناہ کے جو اسے اپنے اس کرتوت کی وجہ سے لاحق ہو رہا ہے سب سے زیادہ ہلاکت و بربادی کا مستحق ہے، اور بسا اوقات وہ خود پسندی کا بھی شکار ہو سکتا ہے۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4983
فوائد ومسائل: بلاشبہ کوئی بندہ اپنے طور پر کتنا ہی صالح کیوں نہ ہو لیکن اگر شیطانی بھرے میں آکر عجب وتکبر کے پھندے میں پھنس گیا تو وہی سب سے زیادہ ہلاکت میں پڑنے والاہے، جیسے گزشتہ حدیث4901 میں گزرا ہے، لہذا بڑے اور برے بول بولنے سے ہمیشہ بچنا چاہیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4983