انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری شفاعت ۱؎ میری امت کے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لیے ہے ۲؎“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4739]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 231)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/213) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ باب خوارج اور بعض معتزلہ کے رد میں ہے جو شفاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر ہیں، اہل حدیث و اہل سنت شفاعت کے قائل ہیں۔ ۲؎: یعنی جن لوگوں کے کبیرہ گناہ ان کے جنت میں جانے سے مانع ہوں گے جبکہ وہ موحد تھے تو ان کے لئے میری شفاعت جنت میں جانے کا ذریعہ ہو گی، لیکن یہ شفاعت اللہ کے حکم اور اس کے اِذْن سے ہوگی جیسا کہ آیت الکرسی میں نیز اس آیت میں ہے «يومئذ لا تنفع الشفاعة إلا من أذن له الرحمن ورضي له قولا»(سورۃ طہ: ۱۰۹) کسی مشرک کو شفاعت نصیب نہ ہو گی، اس لئے ہر آدمی کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ وہ شرک و بدعت کو سمجھے، اور اس بات کی پوری کوشش کرے کہ وہ ان سب سے دور رہے، اور دوسرے لوگوں کو بھی اس سے بچائے، تا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا مستحق ہو۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مشكوة المصابيح (5598) وللحديث طرق عند الترمذي (2435) وغيره
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4739
فوائد ومسائل: 1: گناہ گاروں کو امید رکھنی چاہیے کہ ان کی سفارش ہوگی اور انہیں معاف کردیا جائے گا، مگر ساتھ ہی شدید خوف بھی چاہیے، کیو نکہ یہ بھی معلوم نہیں کہ کس گناہ گارکی شفاعت ہو گی اور کون اس سے محروم رہے گا یا کس کے بارے میں شفاعت ہوگی؟ کیونکہ یہ معاملہ سارے کا سارا االلہ رب العالمین کی اپنی مشیت پر ہے۔ اگر مشیت ہوئی تو فبہا ورنہ شدیدعقاب ہو گا۔ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے: (إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ)(النساء٤٨) يقيناالله تعالی اپنے ساتھ شریک کیے جانےکو نہیں بخشا اوراس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے ارشاد ہے: (وَكَمْ مِنْ مَلَكٍ فِي السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا إِلَّا مِنْ بَعْدِ أَنْ يَأْذَنَ اللَّهُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَرْضَى)(النجم: ٢٦) اورآسمانوں میں بہت سے فرشتے ہیں جن کی سفارش کچھ نفع نہیں دے سکتی مگر بعداس کے کہ اللہ تعالی جس کے لئے چاہے اور پسند فرمائے تو اجازت دے دے اس دن سفارش کچھ کام نہیں آئے گی، مگر جسے رحمن اجازت دےاور اس کی بات کو پسند فرمائے اور یہ لوگ صرف اہل توحید ہوں گے جن کے حق میں اللہ تعالی سفارش کرنے کی اجازت دے گا۔
2: اس خوشخبری کا مطلب یہ نہیں کہ انسان گناہوں کے ارتکاب میں جری ہو جائے بلکہ خوف کے پہلو کو غالب رکھنا چاہیے کیونکر میدان حشر کی تکلیف ناقابل برداشت ہو گی، جہنم تو اس سے بہت زیادہ سخت ہے۔ پھر یہ بھی معلوم نہیں کہ شفاعت قبول ہوتے ہوتے کتنی مدت لگ جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4739
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2435
´امت محمدیہ کے اہل کبائر کی شفاعت کا بیان۔` انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ والوں کے لیے ہو گی“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2435]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی میری امت کے جو اہل کبائر ہوں گے اور جو اپنے گناہوں کی سزا جہنم میں بھگت رہے ہوں گے، ایسے لوگوں کی بخشش کے لیے میری مخصوص شفاعت ہوگی، باقی رفع درجات کے لیے انبیاء، اولیاء، اور دیگر متقی و پرہیز گار لوگوں کی شفاعت بھی ہوگی جو سنی جائے گی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2435
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6305
6305. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سےبیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”ہر نبی نے اللہ تعالٰی سے سوال کیا۔ یا فرمایا: ہر نبی کے لیے ایک مخصوص دعا تھی جو انہوں نے مانگی تو قبول ہوئی لیکن میں نے اپنی دعا قیامت کے دن اپنی امت کی سفارش کے لیے محفوظ رکھی ہوئی ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6305]
حدیث حاشیہ: قال ابن بطال في ھذالحدیث بیان فضل نبینا صلی اللہ علیه وسلم۔ الخ یعنی اس حدیث میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کا بیان ہے جو آپ کو تمام رسولوں پر حاصل ہے کہ آپ نے اس مخصوص دعا کے لئے اپنے نفس پر ساری امت اوراپنے اہل بیت کے لئے ایثار فرمایا۔ نووی نے کہا کہ اس میں آ پ کی طرف سے امت پر کمال شفقت کا اظہار ہے اس میں ان پر بھی دلیل ہے کہ اہل سنت میں سے جو شخص توحید پر مرا وہ دوزخ میں ہمیشہ نہیں رہے گا اگر چہ وہ کبائر پراصرار کرتا ہوا مر جائے۔ (فتح الباري)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6305
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6305
6305. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سےبیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”ہر نبی نے اللہ تعالٰی سے سوال کیا۔ یا فرمایا: ہر نبی کے لیے ایک مخصوص دعا تھی جو انہوں نے مانگی تو قبول ہوئی لیکن میں نے اپنی دعا قیامت کے دن اپنی امت کی سفارش کے لیے محفوظ رکھی ہوئی ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6305]
حدیث حاشیہ: (1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن میری سفارش ہر اس شخص کے لیے قبول ہو گی جو میری امت سے اس حالت میں فوت ہوا ہو کہ اس نے اللہ کے ساتھ شرک نہ کیا ہو۔ " (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 491 (199)(2) اس حدیث میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی برتری اور فضیلت کا بیان ہے جو انہیں تمام انبیاء علیہم السلام پر حاصل ہے کہ آپ نے اس مخصوص دعا کے لیے اپنی ذات پر تمام موحدین کو ترجیح دی۔ اس میں آپ کی طرف سے امت پر کمال شفقت کا بھی اظہار ہے۔ (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اہل سنت میں سے جو شخص توحید پر فوت ہوا ہو وہ جہنم میں ہمیشہ نہیں رہے گا اگرچہ وہ کبیرہ گناہوں پر اصرار ہی کیوں نہ کرتا ہو۔ (فتح الباري: 117/11) واللہ اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6305