عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث روایت کرتے ہیں اس میں ہے کہ کچھ لوگوں نے سعد بن عبادہ سے کہا: اے ابوثابت! حدود نازل ہو چکے ہیں اگر آپ اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائیں تو کیا کریں، انہوں نے کہا: ان دونوں کا کام تلوار سے تمام کر دوں گا، کیا میں چار گواہ جمع کرنے جاؤں گا تب تک تو وہ اپنا کام پورا کر چکے گا، چنانچہ وہ چلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور ان لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ نے ابوثابت کو نہیں سنا وہ ایسا ایسا کہہ رہے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ازروئے گواہ تلوار ہی کافی ہے“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، نہیں، اسے قتل مت کرنا کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ غصہ ور، اور غیرت مند پیچھے پڑ کر (بغیر اس کی تحقیق کئے کہ اس سے زنا سرزد ہوا ہے یا نہیں محض گمان ہی پر) اسے قتل نہ کر ڈالیں“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کا ابتدائی حصہ وکیع نے فضل بن دلہم سے، فضل نے حسن سے، حسن نے قبیصہ بن حریث سے، قبیصہ نے سلمہ بن محبق سے سلمہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کیا ہے، یہ سند جس کا ذکر وکیع نے کیا ہے ابن محبق والی روایت کی سند ہے جس میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کی لونڈی سے مجامعت کر لی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: فضل بن دلہم حافظ حدیث نہیں تھے، وہ واسط میں ایک قصاب تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْحُدُودِ/حدیث: 4417]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 5088)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/476) (ضعیف)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن ماجه (2606) الفضل بن دلھم : لين انوار الصحيفه، صفحه نمبر 156
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4417
فوائد ومسائل: یہ حدیث اپنے مفہوم میں صیح احادیث کے خلاف ہے۔ صحیح احادیث کی رو سے شادی شدہ زانی کی سزا بہر صورت (رجم) پتھروں سے مارنا ہے نہ کہ تلوارسے اور گواہوں کے عین صریح گواہی کے بغیرایسا نہیں کیا جا سکتا اور یہ کام بھی قاضی اور عدالت کے ذمے ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4417