ابوظبیان جنی کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک عورت لائی گئی جس نے زنا کا ارتکاب کیا تھا، تو انہوں نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا، علی رضی اللہ عنہ کا وہاں سے گزر ہوا، انہوں نے اسے پکڑا اور چھوڑ دیا، تو عمر کو اس کی خبر دی گئی تو انہوں نے کہا: علی رضی اللہ عنہ کو میرے پاس بلاؤ، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگے: امیر المؤمنین! آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”قلم تین شخصوں سے اٹھا لیا گیا ہے: بچہ سے یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائے، سوئے ہوئے شخص سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے، اور دیوانہ سے یہاں تک کہ وہ اچھا ہو جائے“ اور یہ تو دیوانی اور پاگل ہے، فلاں قوم کی ہے، ہو سکتا ہے اس کے پاس جو آیا ہو اس حالت میں آیا ہو کہ وہ دیوانگی کی شدت میں مبتلاء رہی ہو، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے نہیں معلوم کہ وہ اس وقت دیوانی تھی، اس پر علی رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ نہیں تھی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْحُدُودِ/حدیث: 4402]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 10196، 10078) (صحیح)» دون قولہ: «لعل الذی» سے آخر تک ثابت نہیں ہے
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله لعل الذي
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عطاء بن السائب اختلط انوار الصحيفه، صفحه نمبر 156