عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک پاگل عورت لائی گئی جس نے زنا کا ارتکاب کیا تھا، آپ نے اس کے سلسلہ میں کچھ لوگوں سے مشورہ کیا، پھر آپ نے اسے رجم کئے جانے کا حکم دے دیا، تو اسے لے کر لوگ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے تو انہوں نے لوگوں سے پوچھا: کیا معاملہ ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ ایک پاگل عورت ہے جس نے زنا کا ارتکاب کیا ہے، عمر نے اسے رجم کئے جانے کا حکم دیا ہے، تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اسے واپس لے چلو، پھر وہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: امیر المؤمنین! کیا آپ کو یہ معلوم نہیں کہ قلم تین شخصوں سے اٹھا لیا گیا ہے: دیوانہ سے یہاں تک کہ اسے عقل آ جائے، سوئے ہوئے سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے، اور بچہ سے یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائے، کہا: کیوں نہیں؟ ضرور معلوم ہے، تو بولے: پھر یہ کیوں رجم کی جا رہی ہے؟ بولے: کوئی بات نہیں، تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر اسے چھوڑیئے، تو انہوں نے اسے چھوڑ دیا، اور لگے اللہ اکبر کہنے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْحُدُودِ/حدیث: 4399]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 10196)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/ الحدود 1 (عقیب 1423)، مسند احمد (1/155، 158) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کہ اللہ نے انہیں اس غلطی سے بچا لیا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف الأعمش مدلس وعنعن والموقوف عند ابن الجعد (مسند علي بن الجعد : 741) عن علي رضي اللّٰه عنه قال لعمر رضي اللّٰه عنه : ’’ أما بلغك أن القلم قد و ضع عن ثلاثة : عن المجنون حتي يفيق و عن الصبي حتي يعقل و عن النائم حتي يستيقظ ‘‘ وسنده صحيح انوار الصحيفه، صفحه نمبر 155
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4399
فوائد ومسائل: 1) ارشاد باری تعالی ہے: (وفوقَ كُلِّ ذِي علمٍ عليمٌ)(يوسف:٧٦) ہرعلم والے سے بڑھ کرعلم والےہوتےہیں۔ یہ حقیقت صحا بہ کرام رضی اللہ عنہ میں بھی تھی۔ اور کوئی بھی صحابی انفرادی طور پرسارے علم شریعت اور علم نبوت کا جامعہ اور محیط نہ تھا، البتہ مجموعی طور پرعلم شریعت پورے کا پورا صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں موجود اور منشرتھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دواوین سنت میں جمع کیا جاتا رہا۔ اور پھر یہی حال اجتہاد کا ہے کہ تمام صحابہ یا ان کے بعد ائمہ اکرام یا قاضی حضرات اس وصف میں برابر نہیں تھے، اس لئے کسی بھی صاحب دین کے لئے روا نہیں کہ ائمہ اربعہ یا دیگر علماء امت کے متعلق یہ گمان رکھے کہ بس وہی شریعت کے کامل ترین عالم تھے یا انہی کا فتوی اور قول دین میں حرف آخر ہے۔ اصحاب علم پر واجب ہے کہ غیر منصوص مسائل میں حسب صلا حیت مختلف ائمہ اور علماء کے فتوے اور قول جاننے کی کوشش کریں تاکہ صاحب بصیرت ہو کر فتوے دیں اور فیصلہ کریں۔
(2) اصحاب علم پر واجب ہے کہ دیگر حکام علماء یا قاضیوں سے اگر کوئی غلطی ہو رہی ہو تو انہیں آگاہ کریں اور دلائل سے قائل کریں۔ اسی طرح صاحب منصب کو بھی چاہیے کہے کہ حق کے قبول میں دریغ نہ کرے۔
(3) مجنون پاگل یا چھوٹا نابالغ بچہ کوئی جرم کرے یا سوتے میں کوئی جرم ہوجائے تو اس پر شرعی حد نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4399