عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آیت کریمہ «إنما جزاء الذين يحاربون الله ورسوله ويسعون في الأرض فسادا أن يقتلوا أو يصلبوا أو تقطع أيديهم وأرجلهم من خلاف أو ينفوا من الأرض» سے «غفور رحيم» تک مشرکین کے متعلق نازل ہوئی ہے تو جو اس پر قابو پائے جانے سے پہلے توبہ کر لے تو ایسا نہ ہو گا کہ اس کے ذمہ سے حد ساقط ہو جائے ۲؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْحُدُودِ/حدیث: 4372]
وضاحت: ۱؎: سنن نسائی میں یہاں عبارت اس طرح ہے: «فمن تاب منهم قبل أن يقدر عليه لم يكن عليه سبيل، وليست هذه الآية للرجل المسلم، فمن قتل وأفسد في الأرض وحارب الله ورسوله ثم لحق بالكفار قبل أن يقدر عليه لم يمنعه ذلك أن يقام فيه الحد الذي أصابه» ۔ ۲؎: یہ صرف ابن عباس رضی اللہ عنہما کا مذہب ہے، جمہور علماء کی رائے اس کے خلاف ہے، نیز اس کے راوی علی بن حسین کے بارے میں کلام ہے، ان کا حافظہ کمزور تھا اس لئے انہیں وہم ہو جاتا تھا۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن أخرجه النسائي (4051 وسنده حسن)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4372
فوائد ومسائل: 1۔ دیگرصیح احادیث سے ثابت ہے کہ یہ آیت کریمہ عکل اور عرینہ کے لوگوں کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی اور معروف فقہی قاعدہ ہے کہ احکام میں عمومِ الفاظ کا اعتبار کیا جاتا ہے نہ کہ خاص اسباب کا۔
2۔ مجرم اگر قابو پائے جانےسے پہلے توبہ کرلے تو امید ہے کہ حقوق اللہ معاف ہوجائیں مگر حقوق العباد معاف نہیں ہوتے، دیکھیے: (الروضة الندية:620/2 وغیرہ
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4372