اس سند سے بھی جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث مروی ہے اس میں اتنا اضافہ ہے: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر واپس گئے تو قریش کے لوگ آپ کے پاس آئے اور انہوں نے عرض کیا: پھر کیا ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ”پھر قتل ہو گا“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَهْدِيِّ/حدیث: 4281]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 2126)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/92) (صحیح) (اس میں: «فلما جمع» کا ٹکڑا صحیح نہیں ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله فلما رجع
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن الأسود بن سعيد الھمداني حسن الحديث علي الراجح
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4281
فوائد ومسائل: اس روایت کے صحیح بخاری کتاب الاحکام میں الفاظ یہ ہیں: (يكون اثنا عشر أميرًا كلهم من قريشٍ)(حديث٧٢٢٢ ٧٢٢٣) صحیح مسلم کتاب الامارہ میں ہے لوگوں کا معاملہ جاری و ساری رہے گا۔ اور ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں: اسلام غالب رہے گا، طبرانی (6 / 415) کی روایت ہے: میری امت کا معاملہ صالح اور عمدہ رہے گا۔ اس مضموں کی روایات میں اجمال ہے اس کی حقیقی تعبیر اللہ ہی بہتر جانتا ہے، تمام علمائے محدثین نے مختلف انداز میں اس کی توجیہ بیان کی ہے، فتح الباری کتاب الا حکام میں یہ بحث دیکھی جا سکتی ہے۔ ایک توجیہ یہ کی گئی ہے کہ اس میں دو احتمال ہیں، ایک احتمال ہے کہ یہ خلفا آپؑ کے متصل بعد ہونگے۔ دوسرا یہ ہے کہ یہ قیامت تک کی مدت میں آئیں گے اور یہ خاص خلفاء ہوں گے جن پر لوگوں کا اتفاق ہوگا اور اسلام بھی کامل طور پر نافذ ہو کر اپنی برکات ظاہر کرے گا۔ حافظ ابنِ حجرؒ کا رجحان یہ ہے کہ یہ خلفاء آپؑ کے متصل بعد ہیں، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے لے کر عبد اللہ بن عبدالعزیزؒ (101 ہجری) تک کل چودہ خلفاء ہو ئے ہیں۔ ان میں سے معاویہ بن یزید اور مروان بن حکم کی ولایت نہ صحیح تھی نہ طویل المدت۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے بعد حالات احوال از حد متغر ہو گئے اور ان پر خیر القرون میں سے پہلی قرن (صدی) بھی ختم ہو گئی۔ اس دور میں حضرت حسن بن علی اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے دور میں اعتراض آتا ہے کہ ان پر اتفاق نہ تھا، اگرچہ ان کی ولایت بروحق ہے، مگر سیدنا حسن چھے ماہ بعد ہی خلافت سے دستبردار ہوگئے تھے۔ اور جناب عبدا للہ بن زبیر شہید کر دیئے گئے تو معاملہ فریقِ ثانی پر مجتمع ہو گیا۔ تو باقیوں کے معاملے میں یہ مدت معمولی اور غیر معتبر ہے، لیکن اسلام من حیث المجموع غالب، عزیز اور امت کا معا ملہ صالح رہا۔ یہاں ایک اشکال اور سامنے آتا ہے کہ نبی ﷺ نے ایک اور حدیث میں فرما یا ہے کہ خلافت 30 سال تک رہے گی، یہ بات بظاہر زیرِ بحث حدیث کے خلاف ہے اور لوگ بھی اس سے استدلال کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ 30 سال کے بعد کی خلافتیں صحیح نہیں ہے یا وہ بادشاہتیں ہیں، لیکن یہ بات صحیح نہی ہے۔ نہ یہ دونوں حدیثیں باہم متعارض ہیں اور نہ مذکورہ دعویٰ ہی صحیح ہے۔ حدیث میں جو الفاظ آتے ہیں وہ یہ ہیں خلافتِ نبوت 30 سال رہے گی، پھر بادشاہی اللہ تعالی جس کو چاہے گا دے دیگا۔ (سنن أبو داود، حدیث: 4646) اس کا مطلب یہ ہے کہ خلافت علی منہاج النبوت 20 سال تک رہے گی، لیکن بعد میں قائم ہونے والی خلافتوں میں منہاج نبوت سے کچھ انحراف آجائے گا ورنہ خلافت بھی رہے گی اور اسلام بھی قائم و غالب رہے گا اور ایس ہی ہوا۔ (اس کی مزید تفصیل آگےحدیث:4646 کے فوائد میں ملاحظہ فرمائیں)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4281