ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب ایک ایسا فتنہ رونما ہو گا کہ اس میں لیٹا ہوا شخص بیٹھے ہوئے سے بہتر ہو گا، بیٹھا کھڑے سے بہتر ہو گا، کھڑا چلنے والے سے بہتر ہو گا اور چلنے والا دوڑنے والے سے“ عرض کیا: اللہ کے رسول! اس وقت کے لیے آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس اونٹ ہو وہ اپنے اونٹ سے جا ملے، جس کے پاس بکری ہو وہ اپنی بکری سے جا ملے، اور جس کے پاس زمین ہو تو وہ اپنی زمین ہی میں جا بیٹھے“ عرض کیا: جس کے پاس اس میں سے کچھ نہ ہو وہ کیا کرے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس اس میں سے کچھ نہ ہو تو اسے چاہیئے کہ اپنی تلوار لے کر اس کی دھار ایک پتھر سے مار کر کند کر دے (اسے لڑنے کے لائق نہ رہنے دے) پھر چاہیئے کہ جتنی جلد ممکن ہو سکے وہ (فتنوں سے) گلو خلاصی حاصل کرے“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْفِتَنِ وَالْمَلَاحِمِ/حدیث: 4256]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الفتن 3 (2887)، (تحفة الأشراف: 11702)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/39، 48) (صحیح)»
ستكون فتنة يكون المضطجع فيها خيرا من الجالس الجالس خيرا من القائم القائم خيرا من الماشي الماشي خيرا من الساعي ما تأمرني قال من كانت له إبل فليلحق بإبله من كانت له غنم فليلحق بغنمه ومن كانت له أرض فليلحق بأرضه قال فمن لم يكن
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4256
فوائد ومسائل: سب سے بڑا فتنہ یہ ہو گا کہ عام لوگ بے دین ہو کر اپنی من مرضی کے طابع ہوتے ہوئے وقتی فوائد حاصل کرنے کے درپے ہونگے اور دوسروں کو بھی اس پر مجبور کریں گے۔ تو ایسے حالات میں سوائے مذکورہ بالا علاج کے کہ انسان آبادیوں سے اور فسادیوں سے دور بھاگ جائے اور کو ئی چارہ نہیں ہو گا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4256