ثوبان مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر پر تشریف لے جاتے تو اپنے گھر والوں میں سب سے اخیر میں فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ملتے اور جب سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات کرتے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوہ سے تشریف لائے، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے دروازے پر ایک ٹاٹ یا پردہ لٹکا رکھا تھا اور حسن و حسین رضی اللہ عنہما دونوں کو چاندی کے دو کنگن پہنا رکھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو گھر میں داخل نہیں ہوئے تو وہ سمجھ گئیں کہ آپ کے اندر آنے سے یہی چیز مانع رہی ہے جو آپ نے دیکھا ہے، تو انہوں نے دروازے سے پردہ اتار دیا، پھر دونوں صاحبزادوں کے کنگن کو اتار لیا، اور کاٹ کر ان کے سامنے ڈال دیا، تو وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روتے ہوئے آئے، آپ نے ان سے کٹے ہوئے ٹکڑے لے کر فرمایا: ”ثوبان! اسے مدینہ میں فلاں گھر والوں کو جا کر دے آؤ“ پھر فرمایا: ”یہ لوگ میرے اہل بیت ہیں مجھے یہ ناپسند ہے کہ یہ اپنے مزے دنیا ہی میں لوٹ لیں، اے ثوبان! فاطمہ کے لیے مونگوں والا ایک ہار اور ہاتھی دانت کے دو کنگن خرید کر لے آؤ“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب التَّرَجُّلِ/حدیث: 4213]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 2088)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/275، 279) (ضعیف الإسناد منکر)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد منكر
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سليمان المنبھي وحميد الشامي مجهولان (تق: 2622،1567) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 150
إذا سافر كان آخر عهده بإنسان من أهله فاطمة وأول من يدخل عليها إذا قدم فاطمة اذهب بهذا إلى آل فلان أهل بيت بالمدينة إن هؤلاء أهل بيتي أكره أن يأكلوا طيباتهم في حياتهم الدنيا يا ثوبان اشتر لفاطمة قلادة من عصب وسوارين من عاج
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4213
فوائد ومسائل: یہ رویت سندَا ضعیف ہے، تاہم ہا تھی ہے دانتوں کی بابت صحیح بخاری میں امام زہریؒ سے منقول ہے: ہا تھی کے دانت اور دیگر مُرداروں کی ہڈیوں کے سلسلے میں سلف کے کئی علماء کو میں نے پایا کہ ہاتھی دانت وغیرہ سے بنی کنگھیاں استعمال کرتے اور ان سے بنے برتنوں میں تیل ڈالتے اور اس میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے۔ ابنِ سرین اور ابراہیم نخعی نے کہا کہ ہاتھی دانت کی تجارت میں کو ئی حرج نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4213