جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے آپ نے ایک پراگندہ سر شخص کو جس کے بال بکھرے ہوئے تھے دیکھا تو فرمایا: ”کیا اسے کوئی ایسی چیز نہیں ملتی جس سے یہ اپنا بال ٹھیک کر لے؟“ اور ایک دوسرے شخص کو دیکھا جو میلے کپڑے پہنے ہوئے تھا تو فرمایا: ”کیا اسے پانی نہیں ملتا جس سے اپنے کپڑے دھو لے؟“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب اللِّبَاسِ/حدیث: 4062]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/الزینة من المجتبی 6 (5238)، (تحفة الأشراف: 3012)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/357) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (4351) أخرجه النسائي (5238 وسنده صحيح) وابن عبد البر في التمھيد (5/52)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4062
فوائد ومسائل: لازم ہے کہ مسلمان اپنے جسم اور اپنے لباس کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھا کرے۔ میلا کچیلا رہنا اور بالوں کو نہ سنوارنا نہ زہد ہے نہ سادگی بلکہ جہالت اور غفلت کی علامت ہے جو کسی باوقار مسلمان کے لائق نہیں۔ اسلام انتہائی صاف ستھرا دین ہے اور اپنے پیروکاروں سے بھی صفائی کا تقاضا کرتا ہے نیز اللہ تعالی جمیل ہے اور جمال ہی کو پسند فرماتا ہے، رسول ؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ بلا شبہ اللہ تعالی حسین وجمیل ہے اور جمال یعنی حسن وخوبصورتی کو پسند کرتا فرماتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4062