ابوبردہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا تو انہوں نے یمن کا بنا ہوا ایک موٹا تہبند اور ایک کمبل جسے «ملبدة» کہا جاتا تھا نکال کر دکھایا پھر وہ قسم کھا کر کہنے لگیں کہ انہیں دونوں کپڑوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب اللِّبَاسِ/حدیث: 4036]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4036
فوائد ومسائل: موٹے لباس سے طبعیت میں قوت وصلابت اور مردانہ صفات اجاگر ہوتی ہیں، چنانچہ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ اپنے عمال کو موٹا لباس پہننےکا پابند کیا کرتے تھے، جبکہ باریک اور ملائم لباس سے طبعیت میں نزاکت بڑھتی ہے، تاہم حسب احوال ومصالح اونی، سوتی، موٹا یا باریک لباس پہننا مباح ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4036
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5442
حضرت ابو بردہ بیان کرتے ہیں، میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ہاں گیا تو انہوں نے یمن میں بنائی جانے والی ایک موٹی تہبند اور ایک کمبل نکالا جس کو مُلَبَّدَه [صحيح مسلم، حديث نمبر:5442]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: ملبدة: مختلف ٹکڑوں کو ملاکربنائی گئی یا پیوند لگی لوئی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5442
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5818
5818. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہمیں ایک موٹی کملی اور ایک موٹی چادر دکھائی اور فرمایا کہ نبی ﷺ کی روح ان دونوں کپڑوں میں قبض ہوئی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5818]
حدیث حاشیہ: (1) ایک روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: موٹی چادر یمن کی بنی ہوئی تھی اور کمبل بھی اسی قسم کا تھا جسے تم مُلَبدہ کہتے ہو۔ (صحیح البخاري، فرض الخمس، حدیث: 3108)(2) دراصل لِبدہ کپڑے کے اس ٹکڑے کو کہتے ہیں جو پیوند لگانے کے طور پر استعمال ہوتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کمبل پیوند شدہ تھا یا اس کی بُنتی اس طرح کی تھی کہ چار خانے بنے ہوتے تھے اور وہ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے پیوند لگے ہوئے ہوں، بہرحال اس طرح کے کپڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر استعمال تھے، لہذا انہیں اوڑھنے یا پہننے میں کوئی حرج نہیں۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5818