الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كتاب الكهانة والتطير
کتاب: کہانت اور بدفالی سے متعلق احکام و مسائل
24. باب فِي الطِّيَرَةِ
24. باب: بدشگونی اور فال بد لینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3924
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا فِي دَارٍ كَثِيرٌ فِيهَا عَدَدُنَا، وَكَثِيرٌ فِيهَا أَمْوَالُنَا، فَتَحَوَّلْنَا إِلَى دَارٍ أُخْرَى فَقَلَّ فِيهَا عَدَدُنَا وَقَلَّتْ فِيهَا أَمْوَالُنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ذَرُوهَا ذَمِيمَةً".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم ایک گھر میں تھے تو اس میں ہمارے لوگوں کی تعداد بھی زیادہ تھی اور ہمارے پاس مال بھی زیادہ رہتا تھا پھر ہم ایک دوسرے گھر میں آ گئے تو اس میں ہماری تعداد بھی کم ہو گئی اور ہمارا مال بھی گھٹ گیا، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے چھوڑ دو، مذموم حالت میں ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الكهانة والتطير /حدیث: 3924]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 193) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس گھر کو چھوڑ دینے کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے دیا کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ وہ گھر ہی کو مؤثر سمجھنے لگ جائیں اور شرک میں پڑ جائیں۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
عكرمة بن عمار مدلس وعنعن
بل صرح بالسماع عند البزار (البحر الزخار 79/13 ح6427)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 140

   سنن أبي داودكنا في دار كثير فيها عددنا وكثير فيها أموالنا فتحولنا إلى دار أخرى فقل فيها عددنا وقلت فيها أموالنا فقال رسول الله ذروها ذميمة

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3924 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3924  
فوائد ومسائل:
رسول اللہ ﷺ نے انھیں یہ گھر چھوڑنے کا حکم اس لیئے دیا کہ تجربے سے اس گھر کا بے برکت ہونا ثابت ہوگیا تھا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی اور جہاں بھی اس قسم کی صورت سامنے آئے، تو وہاں اس حکمِ نبوی کے مطابق عمل کرلینا بہتر ہے۔
اور بعض شارحین نے کہا ہے کہ نبی ﷺ نےانہیں گھر بدلنے کا حکم اس لیئے دیا تھا کہ وہ اس وہم کا شکار نہ ہوں کہ اُنھیں یہ نقصان اس گھر کی وجہ سے پہنچا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3924