عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ بعض چیزوں کو کھاتے تھے اور بعض چیزوں کو ناپسندیدہ سمجھ کر چھوڑ دیتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا، اپنی کتاب نازل کی اور حلال و حرام کو بیان فرمایا، تو جو چیز اللہ نے حلال کر دی وہ حلال ہے اور جو چیز حرام کر دی وہ حرام ہے اور جس سے سکوت فرمایا وہ معاف ہے، پھر ابن عباس نے آیت کریمہ: «قل لا أجد فيما أوحي إلى محرما»”آپ کہہ دیجئیے میں اپنی طرف نازل کی گئی وحی میں حرام نہیں پاتا“ اخیر تک پڑھی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَطْعِمَةِ/حدیث: 3800]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3800
فوائد ومسائل: فائدہ: عادات کے امور میں اصل حلت ہے۔ سوائے اس کے کہ ان کےحرام ہونے کا حکم ہو۔ اور یہ حکم صرف وحی کے ذریعے ہی سے معلوم ہو سکتا ہے۔ نہ کہ خواہش نفس سے لہذا جن چیزوں کے حرام ہونے کی شریعت میں صراحت نہیں ہے۔ علمائے کرام اصول شریعت اور ان چیزوں کے خواص وصفات کی بنا پر ان کا حکم بتاتے ہیں۔ لہذا ہر علاقے کے ثقہ علماء کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ مذید آیت کریمہ کی تفسیر کےلئے تفسیر احسن البیان وغیرہ دیکھی جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3800