عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آیت کریمہ: «لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل إلا أن تكون تجارة عن تراض منكم»(سورۃ النساء: ۲۹) کے نازل ہونے کے بعد لوگ ایک دوسرے کے یہاں کھانا کھانے میں گناہ محسوس کرنے لگے تو یہ آیت سورۃ النور کی آیت: «ليس عليكم جناح أن تأكلوا من بيوتكم ..... أشتاتا»( سورۃ النساء: ۶۱) سے منسوخ ہو گئی، جب کوئی مالدار شخص اپنے اہل و عیال میں سے کسی کو دعوت دیتا تو وہ کہتا: میں اس کھانے کو گناہ سمجھتا ہوں اس کا تو مجھ سے زیادہ حقدار مسکین ہے چنانچہ اس میں مسلمانوں کے لیے ایک دوسرے کا کھانا جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو حلال کر دیا گیا ہے اور اہل کتاب کا کھانا بھی حلال کر دیا گیا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَطْعِمَةِ/حدیث: 3753]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3753
فوائد ومسائل: فائدہ: سورہ نساء کی آیت سے بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے یہ سمجھا کہ تجارت کے بغیر کسی کے ہاں کھانا کھانا۔ اکل بالباطل (ناجائز) ہے۔ اسی طرح بعض مال دار اپنے غریب رشتے دار کے ہاں کھانے میں حرج سمجھتے تھے۔ سورہ نور کی آیت سے ان دونوں شبہات کا ازالہ کرکے واضح کر دیا گیا کہ تم تجارت کے بغیر بھی ایک دوسرے کے ہاں کھانا کھا سکتے ہو۔ اسی طرح مالدار شخص اپنے غریب رشتے دار کے گھر کھانا کھا سکتا ہے۔ صرف ایک شرط ہے کہ اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ علاوہ ازیں اہل کتاب کا کھانہ بی تمہارے لئے حلال ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3753