یعلیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”جب تمہارے پاس میرے فرستادہ پہنچیں تو انہیں تیس زرہیں اور تیس اونٹ دے دینا“ میں نے کہا: کیا اس عاریت کے طور پر دوں جس کا ضمان لازم آتا ہے یا اس عاریت کے طور پر جو مالک کو واپس دلائی جاتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مالک کو واپس دلائی جانے والی عاریت کے طور پر“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حبان ہلال الرائی کے ماموں ہیں۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3566]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11841)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/222) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «أعارية مضمونة» یہ ہے کہ اگر وہ چیز ضائع ہو جائے گی تو اس کی قیمت ادا کی جائے گی، اور «أعارية مؤداة» یہ ہے کہ اگر چیز بعینہٖ موجود ہے تو اسے واپس دینا ہو گا، اور اگر وہ چیز ضائع ہو گئی تو قیمت ادا کرنے کی ذمہ داری نہ ہو گی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف نسائي في الكبريٰ (5776) قتاده مدلس وعنعن وللحديث شواھد ضعيفة انوار الصحيفه، صفحه نمبر 126