الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كِتَابُ الْإِجَارَةِ
کتاب: اجارے کے احکام و مسائل
29. باب فِي أَثْمَانِ الْكِلاَبِ
29. باب: کتے کی قیمت لینا منع ہے۔
حدیث نمبر: 3484
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي مَعْرُوفُ بْنُ سُوَيْدٍ الْجُذَامِيُّ، أَنَّ عُلَيَّ بْنَ رَبَاحٍ اللَّخْمِيَّ، حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَحِلُّ ثَمَنُ الْكَلْبِ، وَلَا حُلْوَانُ الْكَاهِنِ، وَلَا مَهْرُ الْبَغِيِّ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کتے کی قیمت حلال نہیں ہے، نہ کاہن کی کمائی حلال ہے اور نہ فاحشہ کی کمائی۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3484]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن النسائی/الصید والذبائح 15 (4298)، (تحفة الأشراف: 14260) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
أخرجه النسائي (4298 وسنده حسن)

   سنن النسائى الصغرىلا يحل ثمن الكلب لا حلوان الكاهن لا مهر البغي
   سنن النسائى الصغرىكسب الحجام عن ثمن الكلب عن عسب الفحل
   سنن النسائى الصغرىثمن الكلب عسب الفحل
   سنن أبي داودلا يحل ثمن الكلب لا حلوان الكاهن لا مهر البغي
   سنن ابن ماجهثمن الكلب عسب الفحل

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3484 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3484  
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
اسلام اپنے معاشرے کو ان تمام نجاستوں اور قباحتوں سے پاک رکھنا چاہتا ہے۔
جو کتا پرست معاشرے کا خاصہ ہیں۔
اس غرض سے اسلام نے اس کی خریدوفروخت کو سختی سے روک دیا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3484   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2160  
´کتے کی قیمت، زانیہ کی کمائی، کاہن کی اجرت اور نر سے جفتی کرانے کی اجرت کے احکام کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، اور نر سے جفتی کرانے کے معاوضہ سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2160]
اردو حاشہ:
فائدہ:
گائے، بھینس، بکری وغیرہ کونسل بڑھانے کے لیے نر کے پاس لے جای جاتا ہے۔
نر جانور کا مالک جفتی کے بدلے میں کچھ معاوضہ وصول کرتا ہے۔
یہ درست نہیں بلکہ یہ کام فی سبیل اللہ ہونا چاہیے، البتہ اگر مادہ جانور کا مالک اپنی مرضی سے مطالبہ کیے بغیر کچھ پیش کرے تو لے لینا جائز ہے۔
دیکھے:
(جامع الترمذي، البيوع، باب ماجاء في كراهية عسب الفحل، حديث: 1274)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2160