ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوکہ کی بیع سے روکا ہے۔ عثمان راوی نے اس حدیث میں «والحصاة» کا لفظ بڑھایا ہے یعنی کنکری پھینک کر بھی بیع کرنے سے روکا ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 3376]
وضاحت: ۱؎: یعنی بائع مشتری سے یا مشتری بائع سے یہ کہے کہ جب میں تیری طرف کنکریاں پھینک دوں تو بیع لازم ہو جائے گی یا بکریوں کے گلے میں جس بکری پر کنکری پڑے وہ میں دے دوں گا یا لے لوں گا۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3376
فوائد ومسائل: (بیع الحصاۃ) کنکری پھینک کر بیع کرنا یعنی خریدار یا فروخت کرنے والا کہے کہ جب میں کنکری پھینک دوں گا تو بیع پختہ ہوجائے گی۔ یا جس چیز پر کنکری پڑی وہ دے دوں گا یا لے لوںگا خریدوفروخت کا یہ انداز ممنوع ہے۔ آج کل بھی ایسا جوا رائج ہے۔ کہ آپ کا نشانہ جس چیز پر لگ جائے گا۔ اتنی قیمت میں وہ آپ کی ہوگی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3376
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4522
´کنکری پھینک کر بیع کرنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکری کی بیع اور دھوکے کی بیع سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4522]
اردو حاشہ: (1) بَیْعِ الْحِصَاۃِ، لفظ بَیْعٌ، بَاعَ یَبِیْعُ کا مصدر ہے اور اَلْحَصَاۃُ جمع ہے اَلْحَصٰی کی۔ یہ مصدر کی اضافت اپنے مفعول کی طرف ہرگز نہیں بلکہ مصدر کی اضافت نوع کی طرف ہے، اس لیے باب کے معنیٰ ہیں: ”کنکریوں والی بیع“ اس کی کئی صورتیں ہوا کرتی تھیں، مثلاً: بائع مشتری سے کہتا کہ تو کنکری مار، وہ جس کپڑے کو یا دوسری اشیاء، جو وہ بیچنا چاہتا، کو کنکری جا لگے گی تو اتنی رقم میں وہ چیز تیری۔ اس میں نہ تو واپسی کا کوئی اختیار ہوتا اور نہ خیارِ مجلس ہی ہوتا اور نہ کپڑے وغیرہ کے کسی نقص اور عیب کی بابت کچھ معلوم ہوتا، اس لیے یہ بیع دراصل غرر اور دھوکے ہی کی بیع تھی جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔ ایک صورت یہ ہوتی کہ بائع مشتری سے کہتا کہ کنکری پھینکو جہاں تک وہ پہنچے گی وہاں تک اپنی زمین تجھے اتنی رقم کے عوض بیچوں گا۔ یہ مجہول چیز کی بیع ہے، اس لیے ناجائز ہے۔ یہ صورت بھی ہوتی تھی کہ بیچنے والا شخص مٹھی میں کنکریاں بند کر لیتا اور کہتا کہ جتنی کنکریاں میری مٹھی سے نکلیں گی، اتنی چیزیں مبیع سے میری ہوں گی۔ یا وہ کوئی سودا فروخت کرتا اور کنکریاں مٹھی میں بند کر کے کہتا کہ میری مٹھی میں جتنی کنکریاں ہوں گی اتنے ہی درہم یا دینار لوں گا، یعنی جو بھی طے ہوتا۔ کبھی وہ لوگ اس طرح بھی کیا کرتے کہ خرید و فروخت کرنے والوں میں سے کوئی ایک اپنے ہاتھ میں کنکریاں لیتا اور کہتا کہ جب بھی کنکریاں گریں گی، بیع واجب ہو جائے گی۔ کبھی وہ لوگ سودا کرتے اور کنکری پھینکنے ہی کو بیع کا واجب ہونا قرار دیتے۔ یہ تمام اقوال امام نووی اور امام ابو العباس قرطبی رحمہ اللہ نے (شرح صحیح مسلم، البیوع، باب بطلان بیع الحصاة و البیع الذی فیه الغرر: 10/220 میں) بیان فرمائے ہیں۔ (2) حدیث کے آخر میں ہر دھوکے والی بیع سے منع کر دیا گیا ہے، مثلاً: پانی کے اندر موجود مچھلی یا فضا کے اندر اڑتے پرندے کی بیع جسے ابھی تک شکار نہیں کیا گیا۔ اللہ جانے وہ شکار ہو سکے یا نہ، اسی طرح بھاگے ہوئے غلام کی بیع۔ نہ معلوم وہ مل سکے یا نہ۔ جو چیز ابھی پیدا ہی نہیں ہوئی، اس کی بیع بھی اسی کے تحت آتی ہے وغیرہ وغیرہ، البتہ اگر تھوڑا بہت ابہام ہو جس سے بچنا ممکن نہیں تو اس کی گنجائش ہے، مثلاً: ماہانہ یا یومیہ کرائے پر کوئی چیز لینا، حالانکہ سب مہینے، اسی طرح سب دن برابر نہیں ہوتے۔ ان میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے لیکن یہ مجبوری ہے، لہٰذا بلاتکلف جائز ہے، نیز ان میں دھوکا دہی کا تصور نہیں جو کہ منع کی اصل بنیاد ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4522
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1230
´بیع غرر (دھوکہ) کی حرمت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع غرر ۱؎ اور بیع حصاۃ سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1230]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: بیع غرر: معدوم ومجہول کی بیع ہے، یاایسی چیز کی بیع ہے جسے مشتری کے حوالہ کرنے پر بائع کو قدرت نہ ہو۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1230
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3808
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکری پھینکنے کی بیع اور دھوکے والی بیع سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3808]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: بیع الحصاۃ، اس کی تین صورتیں ہیں: (1) کپڑوں کے ڈھیر یا تھانوں پر میں کنکر پھینکتا ہوں، جس پر وہ گرے وہ اتنی قیمت میں تیرا ہو گا یا میں یہاں سے کنکر پھینکتا ہوں جہاں گرے گا وہاں تک زمین، اس قیمت پر تیری ہو گی۔ (2) یہ چیز میں تمہیں اتنے میں فروخت کرتا ہوں، جب میں یہ کنکر پھینک دوں گا۔ تو بیع پختہ ہو جائے گی اور تمہارا اختیار ختم ہو جائے گا۔ (3) جب میں اس چیز پر کنکر مار دوں گا، تو یہ تیری ہو گی۔ بہرحال ان تینوں صورتوں میں غرر اور دھوکا اور جوا ہے، اس لیے منع ہے۔ امام شافعی نے بیع ملامسہ، بیع منابذہ اور بیع حصاۃ کو اس لیے منع قرار دیا ہے کہ ان میں ایجاب و قبول نہیں ہے، یعنی بائع کہے میں نے بیچ دی اور مشتری کہے میں نے خرید لی، اس پر قیاس کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں بیع تعاطی بھی جائز نہیں ہے جس کی صورت یہ ہے کہ بائع کہے میں یہ چیز اتنے میں دیتا ہوں، مشتری رقم ادا کر کے وہ چیز لے لے، یا خریدار بائع کو کہتا ہے، میں اس چیز کی اتنی رقم دیتا ہوں، تو وہ اٹھا کر چیز اس کو دے دے۔ تو یہاں زبان سے ایجاب و قبول نہیں ہوا، کہ میں دیتا ہوں، میں لیتا ہوں، حالانکہ فعلاً تو یہاں ایجاب و قبول ہو گیا ہے اور اس میں جہالت اور غرر کی کوئی صورت بھی نہیں ہے، اس لیے باقی ائمہ کے نزدیک یہ جائز ہے اور لوگوں کا یہی عرف اور رواج ہے جو ہر جگہ جاری ہے۔ بیع غرر: جس میں دھوکا اور فریب ہو، یہ ایک ایسا اصول اور ضابطہ ہے جس کے تحت بے شمار صورتیں آ جاتی ہیں مثلا بھگوڑے غلام کی بیع، بھگوڑے جانور کی بیع، حیوان کے پیٹ کے حمل کی بیع، ہوا میں اڑنے والے پرندوں کے شکار کی بیع، پانی میں مچھلیوں کے لیے جال لگانے کی بیع، ہاں معمولی غرر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ مثلا حمام میں نہانا اور ایک معین رقم ادا کرنا، ایک ماہ کے لیے کوئی چیز کرایہ پر دینا، حالانکہ ماہ میں ایک دن کی کمی و بیشی ہوتی ہے۔ اور ہوٹل میں فی آدمی کے کھانے پر یکساں رقم ادا کرنا وغیرہ۔