عبداللہ بن یزید سے روایت ہے کہ زید ابوعیاش نے انہیں خبر دی کہ انہوں نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ گیہوں کو «سلت»(بغیر چھلکے کے جو) سے بیچنا کیسا ہے؟ سعد رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ان دونوں میں سے کون زیادہ اچھا ہوتا ہے؟ زید نے کہا: گیہوں، تو انہوں نے اس سے منع کیا اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے (جب) سوکھی کھجور کچی کھجور کے بدلے خریدنے کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا جا رہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تر کھجور جب سوکھ جائے تو کم ہو جاتی ہے؟“ لوگوں نے کہا: ہاں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے منع فرما دیا ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسماعیل بن امیہ نے اسے مالک کی طرح روایت کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 3359]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/البیوع 14 (1225)، سنن النسائی/البیوع 34 (4559)، سنن ابن ماجہ/التجارات 53 (2264)، (تحفة الأشراف: 3854)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/البیوع 12 (22)، مسند احمد (1/175، 179) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: جمہور علماء کا یہی مذہب ہے، مگر امام ابو حنیفہ کے نزدیک برابر برابر بیچنا درست ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (2820) أخرجه الترمذي (1225 وسنده حسن) والنسائي (4549 وسنده حسن) وابن ماجه (2264 وسنده حسن)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3359
فوائد ومسائل: اس حدیث سے قبل باب کی بابت اختلاف ہے۔ بعض نسخوں میں باب في التمر بالتمر (کھجور کو کھجور کے بدلے بیچنا۔ ) ہے۔ تاہم اس بات میں بھی التمر سے مراد کھجور ہی کا پھل ہے۔ اس لئے اختلاف نسخ کے باوجود بات ایک ہی رہتی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3359
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4549
´تازہ کھجور کے بدلے خشک کھجور خریدنے کا بیان۔` سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تازہ کھجوروں کے بدلے خشک کھجور بیچنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے اپنے اردگرد موجود لوگوں سے سوال کیا: جب تازہ کھجور سوکھ جاتی ہے تو کیا کم ہو جاتی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، تو آپ نے اس سے منع فرمایا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4549]
اردو حاشہ: (1) چونکہ تازہ کھجور خشک ہونے کے بعد کم ہو جاتی ہے، اس لیے ایک فریق کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ سود ہی کی ایک صورت ہے، لہٰذا رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرما دیا۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ شارع علیہ السلام محض اشیاء کی حرمت بیان نہیں فرماتے تھے بلکہ بسا اوقات حرمت کی وجہ بھی بیان فرما دیتے تھے تا کہ لوگ علی وجہ البصیرت ممنوعہ چیز سے رک جائیں، نیز انھیں ممنوعہ چیز کی بابت مکمل طور پر انشراح صدر ہو جیسا کہ مذکورہ مسئلے میں آپ نے حاضرین ہی سے پوچھا: ”کیا خشک ہو کر تازہ کھجور کا وزن کم ہو جاتا ہے؟“ انھوں نے جواب دیا: جی ہاں۔ یقینا! اس حقیقت کا علم رسول اللہ ﷺ کو بھی تھا لیکن آپ نے ان سے پوچھا تا کہ ان کے سامنے حرمت کی وجہ بالکل واضح ہو جائے۔ (3) لوگوں کے مال کسی بھی باطل طریقے سے کھانا حرام ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ﴾(النساء:29:4)”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے مال آپس میں باطل اور ناحق طریقے سے نہ کھاؤ۔“
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4549
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2264
´ «رطب»(تازہ کھجور) کو سوکھی کھجور کے بدلے بیچنے کا بیان۔` بنی زہرۃ کے غلام زید ابوعیاش کہتے ہیں کہ انہوں نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے پوچھا: سالم جَو کو چھلکا اتارے ہوئے جَو کے بدلے خریدنا کیسا ہے؟ سعد رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: دونوں میں سے کون بہتر ہے؟ کہا: سالم جو، تو سعد رضی اللہ عنہ نے مجھے اس سے روکا، اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب تر کھجور کو خشک کھجور سے بیچنے کے بارے میں پوچھا گیا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”کیا تر کھجور سوکھ جانے کے بعد (وزن میں) کم ہو جاتی ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2264]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) سُلت (بغیر چھلکے کے جو) ایک خاص غلہ ہے جو چھلکا نہ ہونے کے لحاظ سے گندم سے مشابہ ہے۔ اور طبعی خواص کی بنا پر جو سے مشابہ ہے۔ بہر حال اسے جو ہی کی جنس سے شمار کیا جاتا ہے۔
(2) خشک کھجور اور تازہ کھجور کا باہم تبادلہ ممنوع ہے اگرچہ دست بدست ہی ہو۔
(3) خشک کھجور اور تازہ کھجور بظاہر ایک ہی جنس ہے‘ اس لیے اس کی اقسام کا تبادلہ جائز ہونا چاہیے لیکن منع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ بظاہر ہم وزن ہونے کے باوجود حقیقت میں ہم وزن نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2264
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1225
´محاقلہ اور مزابنہ کی ممانعت کا بیان۔` عبداللہ بن یزید سے روایت ہے کہ ابوعیاش زید نے سعد رضی الله عنہ سے گیہوں کو چھلکا اتارے ہوئے جو سے بیچنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے پوچھا: ان دونوں میں کون افضل ہے؟ انہوں نے کہا: گیہوں، تو انہوں نے اس سے منع فرمایا۔ اور سعد رضی الله عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ سے تر کھجور سے خشک کھجور خریدنے کا مسئلہ پوچھا جا رہا تھا۔ تو آپ نے قریب بیٹھے لوگوں سے پوچھا: ”کیا تر کھجور خشک ہونے پر کم ہو جائے گا؟ ۱؎“ لوگوں نے کہا ہاں (کم ہو جائے گا)، تو آپ نے اس سے منع فرمایا۔ مؤلف نے بسند «وكيع عن مالك» اسی طرح کی حدی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1225]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہواکہ مفتی کے علم وتجربہ میں اگرکوئی بات پہلے سے نہ ہوتوفتوی دینے سے پہلے وہ مسئلہ کے بارے میں تحقیق کرلے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1225
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:75
75- ابن عیاش نامی راوی کہتے ہیں: سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے عہد حکومت میں دو آدمیوں نے جو اور چھلکے کے بغیر جو کا لین دین کیا، تو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے بتایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں دو آدمیوں نے تازہ اور خشک کھجوروں کا لین دین کیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ”تازہ کھجور جب خشک ہوجائے تو، کیا کم ہوجاتی ہے؟“ لوگوں نے جواب دیا: جی ہاں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ٹھیک نہیں ہے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:75]
فائدہ: قیاس اور اجتہاد کرنا درست ہے، صاف جو اور غیر صاف جو کو ملا کر بیع کرنے کی ممانعت کا ذکر قرآن و حدیث میں نہیں ہے لیکن خشک کھجور اور تازہ کھجور کو ملا کر فروخت کرنے کی دلیل موجود ہے، اور اس میں علت ضرر اور غرر ہے، اور یہی علت صاف جو اور غیر صاف جو میں بھی موجود ہے، اس لیے اس پر قیاس کیا گیا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح سیدنا سعد رضی اللہ عنہ بھی بھی فقیہ، مجتہد اور صاحب بصیرت صحابی تھے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 75