عبدالرحمٰن بن ابزیٰ کہتے ہیں کہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا کہ اتنے میں ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا: بسا اوقات ہم کسی جگہ ماہ دو ماہ ٹھہرے رہتے ہیں (جہاں پانی موجود نہیں ہوتا اور ہم جنبی ہو جاتے ہیں تو اس کا کیا حکم ہے؟) عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جہاں تک میرا معاملہ ہے تو جب تک مجھے پانی نہ ملے میں نماز نہیں پڑھ سکتا، وہ کہتے ہیں: اس پر عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: امیر المؤمنین! کیا آپ کو یاد نہیں کہ جب میں اور آپ اونٹوں میں تھے (اونٹ چراتے تھے) اور ہمیں جنابت لاحق ہو گئی، بہرحال میں تو مٹی (زمین) پر لوٹا، پھر ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں بس اس طرح کر لینا کافی تھا“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر ان پر پھونک ماری اور اپنے چہرے اور اپنے دونوں ہاتھوں پر نصف ذراع تک پھیر لیا، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: عمار! اللہ سے ڈرو ۱؎، انہوں نے کہا: امیر المؤمنین! اگر آپ چاہیں تو قسم اللہ کی میں اسے کبھی ذکر نہ کروں، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہرگز نہیں، قسم اللہ کی ہم تمہاری بات کا تمہیں اختیار دیتے ہیں، یعنی معاملہ تم پر چھوڑتے ہیں تم اسے بیان کرنا چاہو تو کرو۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 322]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ما قبله، (تحفة الأشراف:: 10362) (صحیح)» (مگر «إلى نصف الذراعين» کا لفظ صحیح نہیں ہے، یہ شاذ ہے اور صحیحین میں ہے بھی نہیں)
وضاحت: ۱؎: اس بے اطمینانی کی وجہ یہ تھی کہ عمر رضی اللہ عنہ خود اس قضیہ میں عمار رضی اللہ عنہ کے ساتھ موجود تھے لیکن انہیں اس طرح کا کوئی واقعہ سرے سے یاد ہی نہیں آ رہا تھا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح إلا قوله إلى نصف الذراع فإنه شاذ
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح انظر الحديثين الآتين (323، 324) وأخرجه البيھقي (1/210) من حديث أبي داود به وسنده قوي
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 324
´تیمم کا بیان۔` اس سند سے بھی عبدالرحمٰن بن ابزی سے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کے واسطہ سے یہی قصہ مروی ہے، اس میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں بس اتنا کر لینا کافی تھا“، اور پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا، پھر اس میں پھونک مار کر اپنے چہرے اور اپنی دونوں ہتھیلیوں پر پھیر لیا، سلمہ کو شک ہے، وہ کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ اس میں «إلى المرفقين» ہے یا «إلى الكفين.»(یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہنیوں تک پھیرا، یا پہونچوں تک)۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 324]
324. اردو حاشیہ: اس روایت میں «كفّين» یعنی ہاتھوں کا ذکر ہی صحیح طور پر ”محفوظ“ ہے، نہ کہ ”کہنیوں تک“ کا (شیخ البانی رحمہ اللہ) جیسے کہ حدیث (326) میں آ رہا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 324
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 313
´حضر میں (دوران اقامت) تیمم کا بیان۔` عبدالرحمٰن بن ابزی سے روایت ہے کہ ایک شخص عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور کہا کہ میں جنبی ہو گیا ہوں اور مجھے پانی نہیں ملا، (کیا کروں؟) عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: (غسل کئے بغیر) نماز نہ پڑھو، اس پر عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما نے کہا: امیر المؤمنین! کیا آپ کو یاد نہیں کہ میں اور آپ دونوں ایک سریہ (فوجی مہم) میں تھے، تو ہم جنبی ہو گئے، اور ہمیں پانی نہیں ملا، تو آپ نے تو نماز نہیں پڑھی، اور رہا میں تو میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ کر نماز پڑھ لی، پھر ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ سے ہم نے اس کا ذکر کیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے لیے بس اتنا ہی کافی تھا“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ زمین پر مارا، پھر ان میں پھونک ماری، پھر ان دونوں سے اپنے چہرہ اور دونوں ہتھیلیوں پر مسح کیا - سلمہ کو شک ہے، وہ یہ نہیں جان سکے کہ اس میں مسح کا ذکر دونوں کہنیوں تک ہے یا دونوں ہتھیلیوں تک - (عمار رضی اللہ عنہ کی بات سن کر) عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جو تم کہہ رہے ہو ہم تمہیں کو اس کا ذمہ دار بناتے ہیں۔“[سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 313]
313۔ اردو حاشیہ: ➊ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کا مٹی میں لوٹ پوٹ ہونا ایک اجتہادی عمل تھا اور شاید اس بنا پر تھا کہ تیمم بھی غسل کی جگہ کفایت کر سکے گا جب وہ اس کی مثل ہو، یعنی پورے بدن پر مٹی لگے۔ ➋ اگر اجتہاد کرنے والے سے غلطی ہو جائے تو اسے ملامت نہیں کی جائے گی۔ ➌ جو آدمی اپنے اجتہاد سے کوئی عمل کر لے اور بعد میں اسے معلوم ہو کہ اس کا عمل قرآن وسنت کے منافی تھا تو اس کے لیے اسے دوبارہ لوٹانا ضروری نہیں۔ ➍ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تیمم صرف چہرے اور ہتھیلیوں تک ایک ضرب کے ساتھ ہے۔ دو ضرب اور کہنیوں تک کی روایات کلام سے خالی نہیں، اس لیے محدثین نے ایک ضرب کے ساتھ ہتھیلیوں تک تیمم کو ترجیح دی ہے کیونکہ یہ صحیح ترین روایات ہیں۔ احناف نے دوسرے طریقے کو اختیار کیا ہے اور ان روایات کا جواب یہ دیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف یہ بتلایا ہے کہ وضو والا تیمم ہی غسل کے لیے کافی ہے۔ تیمم کا طریقہ بتلانا مقصود نہ تھا، مگر یہ بات قابل غور ہے کہ بیان کرنے والے صحابہ نے تو یہ مفہوم نہیں سمجھا۔ حاضرین کا فہم معتبر ہے یا غیر حاضرین کا؟ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے یوں تطبیق دی ہے کہ ایک ضرب اور ہتھیلیوں تک تیمم کافی ہے، البتہ دو ضرب کے ساتھ کہنیوں تک افضل اور مستحب ہے لیکن یہ تطبیق بھی محل نظر ہے کیونکہ استحباب اور افضلیت کے اثبات کے لیے صحیح دلیل کا ہونا ضروری ہے۔ تیمم سے متعلق دیگر احکام و مسائل کے لیے دیکھیے: کتاب الغسل و التیمم کا ابتدائیہ۔ ➎ حضرت عمر اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہا غسل کی جگہ تیمم کو کافی نہیں سمجھتے تھے، مگر یہ صرف ان کی احتیاط تھی ورنہ قرآن مجید میں آیت تیمم کے اندر جنابت سے بھی تیمم کی اجازت ہے۔ دیکھیے: [النسآء 43: 4 و المائدة 6: 5] ➏ مذکورہ حدیث پر بعض نسخوں میں عنوان قائم نہیں کیا گیا کیونکہ اس سے پہلے والی حدیث پر بھی یہی عنوان قائم کیا گیا ہے جس سے یہ محض تکرار ہی محسوس ہوتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 313
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث569
´تیمم میں زمین پر ضرب (ہاتھ مارنا) ایک بار۔` عبدالرحمٰن بن ابزی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور کہا کہ میں جنبی ہو گیا اور پانی نہیں پایا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نماز نہ پڑھو، اس پر عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما نے کہا: امیر المؤمنین! کیا آپ کو یاد نہیں کہ جب میں اور آپ ایک لشکر میں تھے، ہم جنبی ہو گئے، اور ہمیں پانی نہ مل سکا تو آپ نے نماز نہیں پڑھی، اور میں مٹی میں لوٹا، اور نماز پڑھ لی، جب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے فرمایا: ”تمہارے لیے بس اتنا کافی تھا“، اور نبی اکرم صلی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 569]
اردو حاشہ: (1) اس سے تیمم کا طریقہ معلوم ہوا کہ پاک زمین پر ہاتھ مار کر ان پر پھونک مارلی جائے پھر وہ ہاتھ چہرے پر پھیر لیے جائیں اور پھر دونوں ہاتوں کو ایک دوسرے پر پھیر لیا جائے تو تیمم مکمل ہوجاتا ہے۔ بازوؤں اور پاؤں پر ہاتھ پھیرنے کی ضرورت نہیں، نہ سر اور کانوں کا مسح کیا جائےگا۔
(2) یہ تیمم جس طرح وضو کا قائم مقام ہوتا ہے اسی طرح غسل کا بھی قائم مقام ہوجاتا ہے۔ غسل کی حاجت ہونے کی صورت میں پورے جسم پر مٹی پہنچانے کی ضرورت نہیں۔
(3) جب کسی مسئلہ میں کوئی نص موجود نہ ہو تو اجتہاد کرنا جائز ہے۔
(4) دو مجتہدین کے اجتہاد میں باہم اختلاف پایا جائے تو ہر مجتہد اپنے اپنے اجتہاد پر عمل کرسکتا ہے۔
(5) مجتہد سے اجتہاد میں غلطی ہو سکتی ہے لیکن وہ اس غلطی کی وجہ سے گناہ گار نہیں ہوگا۔
(6) رسول اللہﷺ نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو وہ نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں دیا جو انھوں نے تیمم کے بجائے زمین پر لوٹ پوٹ ہو کر ادا کی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اجتہادی غلطی کی بناء پر کیا جانے والا عمل بعد میں صحیح مسئلہ معلوم ہونے پردوبارہ ادا کرنا ضروری نہیں البتہ آئندہ کے لیے صحیح مسئلہ پر عمل کرنا ضروری ہے۔
(7) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ پیش آنے والا واقعہ یاد نہیں رہا اس لیے سائل کو نماز نہ پڑھنے کا حکم دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بڑے سے بڑا فقیہ غلط فہمی کا شکار ہو کر کسی مسئلہ میں غلط موقف اختیار کر سکتا ہے کیونکہ وہ معصوم نہیں لہٰذا اختلافی مسائل میں زیادہ قوی موقف کو ترجیح دینا چاہیے خواہ اس کا قائل کوئی بھی عالم ہو۔ کسی خاص عالم ہی کے قول کو اختیار کرنے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔
(8) تیمم میں زمین پر ہاتھ مار کر ان میں پھونک مارنے کا مقصد یہ ہے کہ زائد غبار اتر جائےکیونکہ مقصد صرف حکم کی تعمیل ہے جسم کو غبار آلود کرنا نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 569
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:144
144- ناجیہ بن کعب بیان کرتے ہیں: سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ کو یاد ہے، جب میں اور آپ اونٹوں کی رکھوالی کررہے تھے، تو مجھے جنابت لاحق ہوگئی تو میں زمین میں یوں لوٹ پوٹ ہوگیا جس طرح کوئی جانور لوٹ پوٹ ہوتا ہے۔ پھر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس بات کا تذکرہ کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اس کی جگہ تمہارے لیے تّیمم کرلینا کافی تھا۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:144]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ غسل جنابت کا نائب بھی تمیم ہے، سبحان اللہ! اسلام کس قدر آسان دین ہے۔ تمیم کا طریقہ ایک ہی ہے، خواہ وہ وضو کی جگہ ہو یا غسل کی جگہ۔ مجہتد سے اجتہادی غلطی ممکن ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی حسب ضرورت اجتہاد کر لیا کرتے تھے، اور اجتہاد قیامت تک جاری ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 144
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:338
338. حضرت عبدالرحمٰن بن ابزی فرماتے ہیں: ایک شخص حضرت عمر بن خطاب ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: مجھے جنابت لاحق ہو گئی ہے لیکن پانی نہیں مل سکا۔ اس موقع پر حضرت عمار بن یاسر ؓ نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے کہا: کیا آپ کو یاد ہے کہ ایک مرتبہ میں اور آپ دونوں سفر میں تھے اور جنبی ہو گئے تھے؟ آپ نے تو نماز نہیں پڑھی تھی لیکن میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ ہو کر نماز پڑھ لی تھی۔ پھر میں نے نبی ﷺ سے ذکر کیا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”تیرے لیے اتنا ہی کافی تھا۔“ یہ فر کر آپ نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے، پھر ان میں پھونک ماری، اس کے بعد آپ نے ان سے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مسح فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:338]
حدیث حاشیہ: بعض حضرات کا خیال ہے کہ جب تک مٹی کا اثر تیمم کے وقت چہرے اور ہاتھوں پر نمایاں نہ ہو اس وقت تک مٹی کا استعمال درست نہیں۔ بعض شوافع کا یہ بھی خیال ہے کہ تیمم کے لیے زمین پر ہاتھ مارنے کے بعد یہ ضروری ہے کہ غبار ہاتھوں کو لگ جائے تب تیمم درست ہوگا، جبکہ امام بخاری ؒ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پانی کی طرح مٹی کے اثرات کا چہرے اور ہاتھوں پر نمایاں ہونا ضروری نہیں، مٹی سے آلودہ ہاتھوں کو چہرے پر پھیرنا طہارت ونظافت کے خلاف ہے، اس لیے تیمم کے لیے مٹی پر ہاتھ مارنے کے بعد ہاتھوں پر پھونک مار کر زائد مٹی کو اڑادیا جائے اس کے بعد چہرے اور ہاتھوں کا مسح کیا جائے۔ امام بخاری اس سلسلے میں جوروایت لائے ہیں وہ مختصر ہے کیونکہ روایت بخاری میں سائل کے جواب میں سیدنا عمر ؓ کا جواب منقول نہیں ہے البتہ دیگر طرق روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: جنابت کے بعد اگر پانی نہ مل سکے تو نماز نہ مل سکے تو نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ جیسا کہ سنن نسائی وغیرہ میں ہے کہ میں اگر پانی نہ پاؤں تو نماز نہیں پڑھتا ہوں تا آنکہ مجھے پانی میسر آجائے یعنی غسل کر کے نماز پڑھوں گا۔ (سنن النسائي، الطهارة، حدیث: 317) بہرحال امام بخاری ؒ کی پیش کردہ روایت سے ان کا مدعا پورا ہوتا ہے، کیونکہ اس میں ہاتھوں کو زمین پر مارنے کے بعد ان میں پھونک مارنے کی صراحت ہے۔ اب اس میں ایک اشکال ہے کہ جب روایت میں پھونک مارنے کی صراحت ہے تو امام بخاری نے عنوان میں لفظ (هَل) کیوں استعمال کیا ہے؟ اس کا جواب حافظ ابن حجرؒ نے بایں طور دیا ہے احتمال تھا کہ آپ کا پھونک مارنا مٹی کی وجہ سے ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ ہاتھ پر کسی تنکے وغیرہ کے لگ جانے کی بنا پر ہو یا رسول اللہ ﷺ پھونک مارنے کی مشروعیت بیان کرنا چاہتے ہوں، ان احتمالات کی بنا پر امام بخاری نے عنوان میں لفظ (هَل) استعمال فرمایا ہے۔ (فتح الباري: 574/1) امام بخاری کے اصول موضوعہ میں سے ہے کہ جہاں احتمالات ہوں وہاں عنوان کو (هَل) کے ساتھ مقید کر دیتے ہیں. بعض اوقات کسی خاص وجہ سے اللہ کے ہاں گرد و غبار کی بہت اہمیت ہوتی ہے، جیسا کہ جہاد فی سبیل اللہ کرتے وقت جو گردو غبار اڑتی ہے اور مجاہد کے قدموں پر یا نتھنوں میں پڑتی ہے۔ اسی طرح تیمم کا گرد و غبار بھی اللہ ہی کے لیے ہوتا ہے، لہٰذا عقلی تقاضا ہے کہ اسے دور کرنے کے لیے پھونک نہ ماری جائے، امام بخاری ؒ نے اس کی وضاحت فرمادی کہ عقلی تقاضے کے مقابلے میں نص پر عمل کیا جائے گا اور وہ ہے زمین پر ہاتھ مارنے کے بعد ہاتھوں پر پھونک مارنا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 338
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:339
339. حضرت عبدالرحمٰن بن ابزی ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمار بن یاسر ؓ نے تیمم کے متعلق یہ سب واقعہ بیان کیا (پہلی روایت کی طرف اشارہ ہے) اور شعبہ (ایک راوی) نے اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارا، پھر دونوں ہاتھ اپنے منہ کے قریب کیے، پھر اپنے منہ اور دونوں ہتھیلیوں پر مسح کیا۔ نضر (بن شمیل) کی روایت کے مطابق حضرت عبدالرحمٰن بن ابزی ؓ کہتے ہیں: حضرت عمار بن یاسر ؓ نے فرمایا: (پاک مٹی) مسلمان کا وضو ہے، پانی کی جگہ وہ (مسلمان کو) کافی ہوتی ہے، یعنی جب پانی دستیاب نہ ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:339]
حدیث حاشیہ: 1۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی شرح تراجم بخاری لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؓ کا مذہب اس مسئلے میں وہی ہے جو اصحاب ظواہر اور بعض مجتہدین کا ہے کہ تیمم چہرے اور ہتھیلیوں کا ہونا چاہیے کہنیوں تک کی قید ضروری نہیں، حالانکہ جمہور اس کے خلاف ہیں۔ اصحاب ظواہر کا مسلک یہ ہے کہ تیمم میں مسح کفین تک ہے۔ امام احمد بن حنبل ؒ کا بھی یہی موقف ہے۔ امام بخاری ؒ پیش کردہ روایات سے اسی موقف کی تائید فرما رہے ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ امام بخاری ؒ کے موقف کی بایں الفاظ وضاحت کرتے ہیں: واجب یہی ہے کہ تیمم میں صرف ہتھیلیوں اور چہرے کا مسح کیا جائے۔ امام بخاری نے صیغہ جزم کے ساتھ عنوان بندی کی ہے۔ حالانکہ اس میں اختلاف مشہور ہے۔ کیونکہ امام بخاری اس کے لیے بڑی مضبوط دلیل رکھتے ہیں، صفت تیمم کے متعلق جس قدر احادیث منقول ہیں، ان میں صرف ابو جہیم ؓ اور حضرت عمار ؓ کی احادیث صحیح ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر احادیث ضعیف ہیں یا ان کے موقوف یا مرفوع ہونے میں اختلاف ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ وہ موقوف ہیں۔ حضرت ابو جہیم کی حدیث میں ہاتھوں کا ذکر مجمل طور پرآیا ہے اور حضرت عمار ؓ کی حدیث میں ہتھیلیوں کا ذکر ہے۔ جیسے صحیحین میں بیان کیا گیا ہے، البتہ کہنیوں نصف کلائی اور بغلوں کا ذکرکتب سنن میں ہے، جن روایات میں نصف کلائی یا کہنیوں کا ذکر ہے ان میں تو بہت کلام کیا گیا ہے، البتہ جن روایات میں بغلوں کا ذکر ہے، اس کے متعلق امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ اگر رسول اللہ ﷺ کے حکم سے ثابت ہے تو آپ کے عملی طریقے نے اسے منسوخ کردیا ہے اور اگر آپ کے حکم سے ایسا کرنا ثابت نہیں تو وہ دلیل کیونکر بن سکتا ہے۔ صحیحین کی روایت میں جو ہتھیلیوں اور چہرے پر اکتفاکیا گیا ہے اس کی تائید حضرت عمار ؓ کے فتوی سے بھی ہوتی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے بعد صرف چہرے اور ہتھیلیوں پر مسح کرنے کا فتوی دیتے تھے۔ حدیث کا راوی حدیث کی مراد کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے، خاص طور پر جب وہ مجتہد بھی ہو۔ (فتح الباري: 576) امام ترمذی ؒ نے بعض اہل علم کے حوالے سے لکھا ہے کہ حدیث عمار اضطراب کی وجہ سے قابل حجت نہیں ہے، کیونکہ اس کے بعض طرق میں کندھوں اور بغلوں تک مسح کرنے کا ذکر ہے۔ امام بخاری ؒ نے اپنے مختلف چھ مشائخ سے بیان کر کے ثابت کیا ہے کہ ہتھیلیوں اور چہرے کے مسح والی روایت بہ نسبت دوسری روایات کے راجح ہے اور جس روایت میں کندھوں اور بغلوں کا ذکر ہے۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 318) اس کا جواب امام ترمذیؒ نے بایں الفاظ نقل کیا ہے کہ وہ چہرے اور ہتھیلیوں والی روایت کے خلاف نہیں، کیونکہ حضرت عمار ؓ یہ نہیں کہتے کہ رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق سوال کیا تھا تو آپ نے صرف ہتھیلیوں اور چہرےپر مسح کرنے کا حکم دیا۔ پھر حضرت عمار ؓ رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے بعد بھی فتوی دیتےتھے کہ تیمم کرتے وقت ہتھیلیوں اور چہرے ہی کا مسح کیا جائے۔ (جامع الترمذي، الطهارة، حدیث: 144) 2۔ حضرت عکرمہ حضرت ابن عباس ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ کسی نے ان سے تیمم کے متعلق سوال کیا تو آپ نے کہا: اللہ تعالیٰ نے وضو کے متعلق فرمایا ہے: ﴿فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ﴾”تم اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھوؤو۔ “(المائدة: 5۔ 6) اور تیمم کے متعلق فرمایا ہے: ﴿ فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ﴾”اپنے شہرے اور ہاتھوں کا پاک مٹی سے مسح کرو۔ “(المائدة: 38/5) چور کے ہاتھ کاٹنے کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا﴾”چوری کرنے والا مرد یا عورت اس کے ہاتھ کاٹ دو۔ “(المائدة: 38/5) سنت نے اس کی وضاحت کی ہے کہ چوری میں ہتھیلیوں کو کاٹا جائے، اسی طرح تیمم کے سلسلے میں بھی وضاحت ہے کہ صرف ہاتھ اور ہتھیلیوں کا مسح کیا جائے۔ (جامع الترمذي، الطهارة، حدیث: 144)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 339
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:343
343. حضرت عبدالرحمٰن بن ابزی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت عمار ؓ نے فرمایا: پھر نبی ﷺ نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا، پھر اپنے منہ اور ہتھیلویں پر مسح فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:343]
حدیث حاشیہ: 1۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؓ کا مذہب اس مسئلے میں وہی ہے جو اصحاب ظواہر اور بعض مجتہدین کا ہے کہ تیمم چہرے اور ہتھیلیوں کا ہونا چاہیے کہنیوں تک کی قید ضروری نہیں، حالانکہ جمہور اس کے خلاف ہیں۔ اصحاب ظواہر کا مسلک یہ ہے کہ تیمم میں مسح کفین تک ہے۔ امام احمد بن حنبل ؒ کا بھی یہی موقف ہے۔ امام بخاری ؒ پیش کردہ روایات سے اسی موقف کی تائید فرما رہے ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ امام بخاری ؒ کے موقف کی بایں الفاظ وضاحت کرتے ہیں: واجب یہی ہے کہ تیمم میں صرف ہتھیلیوں اور چہرے کا مسح کیا جائے۔ امام بخاری نے صیغہ جزم کے ساتھ عنوان بندی کی ہے۔ حالانکہ اس میں اختلاف مشہور ہے۔ کیونکہ امام بخاری اس کے لیے بڑی مضبوط دلیل رکھتے ہیں، صفت تیمم کے متعلق جس قدر احادیث منقول ہیں، ان میں صرف ابو جہیم ؓ اور حضرت عمار ؓ کی احادیث صحیح ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر احادیث ضعیف ہیں یا ان کے موقوف یا مرفوع ہونے میں اختلاف ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ وہ موقوف ہیں۔ حضرت ابو جہیم کی حدیث میں ہاتھوں کا ذکر مجمل طور پرآیا ہے اور حضرت عمار ؓ کی حدیث میں ہتھیلیوں کا ذکر ہے۔ جیسے صحیحین میں بیان کیا گیا ہے، البتہ کہنیوں نصف کلائی اور بغلوں کا ذکرکتب سنن میں ہے، جن روایات میں نصف کلائی یا کہنیوں کا ذکر ہے ان میں تو بہت کلام کیا گیا ہے، البتہ جن روایات میں بغلوں کا ذکر ہے، اس کے متعلق امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ اگر رسول اللہ ﷺ کے حکم سے ثابت ہے تو آپ کے عملی طریقے نے اسے منسوخ کردیا ہے اور اگر آپ کے حکم سے ایسا کرنا ثابت نہیں تو وہ دلیل کیونکر بن سکتا ہے۔ صحیحین کی روایت میں جو ہتھیلیوں اور چہرے پر اکتفاکیا گیا ہے اس کی تائید حضرت عمار ؓ کے فتوی سے بھی ہوتی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے بعد صرف چہرے اور ہتھیلیوں پر مسح کرنے کا فتوی دیتے تھے۔ حدیث کا راوی حدیث کی مراد کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے، خاص طور پر جب وہ مجتہد بھی ہو۔ (فتح الباري: 576) امام ترمذی ؒ نے بعض اہل علم کے حوالے سے لکھا ہے کہ حدیث عمار اضطراب کی وجہ سے قابل حجت نہیں ہے، کیونکہ اس کے بعض طرق میں کندھوں اور بغلوں تک مسح کرنے کا ذکر ہے۔ امام بخاری ؒ نے اپنے مختلف چھ مشائخ سے بیان کر کے ثابت کیا ہے کہ ہتھیلیوں اور چہرے کے مسح والی روایت بہ نسبت دوسری روایات کے راجح ہے اور جس روایت میں کندھوں اور بغلوں کا ذکر ہے۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 318) اس کا جواب امام ترمذیؒ نے بایں الفاظ نقل کیا ہے کہ وہ چہرے اور ہتھیلیوں والی روایت کے خلاف نہیں، کیونکہ حضرت عمار ؓ یہ نہیں کہتے کہ رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق سوال کیا تھا تو آپ نے صرف ہتھیلیوں اور چہرےپر مسح کرنے کا حکم دیا۔ پھر حضرت عمار ؓ رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے بعد بھی فتوی دیتےتھے کہ تیمم کرتے وقت ہتھیلیوں اور چہرے ہی کا مسح کیا جائے۔ (جامع الترمذي، الطهارة، حدیث: 144) 2۔ حضرت عکرمہ حضرت ابن عباس ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ کسی نے ان سے تیمم کے متعلق سوال کیا تو آپ نے کہا: اللہ تعالیٰ نے وضو کے متعلق فرمایا ہے: ﴿فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ﴾”تم اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھوؤو۔ “(المائدة: 5۔ 6) اور تیمم کے متعلق فرمایا ہے: ﴿ فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ﴾”اپنے شہرے اور ہاتھوں کا پاک مٹی سے مسح کرو۔ “(المائدة: 38/5) چور کے ہاتھ کاٹنے کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا﴾”چوری کرنے والا مرد یا عورت اس کے ہاتھ کاٹ دو۔ “(المائدة: 38/5) سنت نے اس کی وضاحت کی ہے کہ چوری میں ہتھیلیوں کو کاٹا جائے، اسی طرح تیمم کے سلسلے میں بھی وضاحت ہے کہ صرف ہاتھ اور ہتھیلیوں کا مسح کیا جائے۔ (جامع الترمذي، الطهارة، حدیث: 144)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 343