بنی عروہ بن مسعود کے ایک فرد سے روایت ہے (جنہیں داود کہا جاتا تھا، اور جن کی پرورش ام المؤمنین ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے کی تھی) کہ لیلیٰ بنت قانف ثقفیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں ان عورتوں میں شامل تھی جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو ان کے انتقال پر غسل دیا تھا، کفن کے کپڑوں میں سے سب سے پہلے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازار دیا، پھر کرتہ دیا، پھر اوڑھنی دی، پھر چادر دی، پھر ایک اور کپڑا دیا، جسے اوپر لپیٹ دیا گیا ۱؎۔ لیلیٰ کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے کفن کے کپڑے لیے ہوئے دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور ہمیں ان میں سے ایک ایک کپڑا دے رہے تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجَنَائِزِ/حدیث: 3157]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 18056)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/380) (ضعیف)» (اس کے راوی نوح مجہول ہیں)
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ عورت کے لئے کفن کے پانچ کپڑے مسنون ہیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف نوح بن حكيم مجهول (تق : 7204) وثقه ابن حبان وحده وفي السند علة أخري انظر نصب الراية (258/4) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 116
الشیخ مبشر احمد ربانی رحمہ الله، فوائد و مسائل، سنن ابوداود3157
عورت کے کفن کے کتنے کپڑے ہونے چاہییں سوال: عورت کے کفن کے کتنے کپڑے ہونے چاہییں، کیا عورت کے لیے پجامہ جائز ہے؟ جواب: عام فقہاء ومحدثین کا کہنا ہے کہ عورت کو پانچ کپڑوں میں کفن دیا جائے:
➊ ازار (تہ بند)
➋ قمیص
➌ خمار یعنی اوڑھنی (جس کو دامنی یا سربند بھی کہتے ہیں)۔
➍ دو لفافے یعنی دو بڑی چادریں جس میں لپیٹا جائے۔
اس کی دلیل یہ بیان کی جاتی ہے کہ لیلیٰ بنت قائف ثقفیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ”میں ان عورتوں میں تھی جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی اُم کلثوم رضی اللہ عنہا کو غسل دیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہمیں تہ بند دیا پھر قمیص پر خمار (اوڑھنی) پھر ایک چادر پھر اس کے بعد ایک دوسرے کپڑے میں لپیٹی گئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ کے پاس سیدہ ام کلثوم (رضی اللہ عنہا) کا کفن تھا، آپ ہمیں ایک ایک کپڑاکر کے دیتے تھے۔“[أبوداؤد، كتاب الجنائز: باب فى كفن المرأة 3157، مسند أحمد 380/6]
لیکن یہ روایت درست نہیں، اس کی سند میں نوح بن حکیم مجہول آدمی ہے، اس کی عدالت نامعلوم ہے اسی طرح اس میں داؤد نامی آدمی کا بھی کوئی پتا نہیں کہ وہ کون ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا جب فوت ہوئی تھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میدانِ بدر میں تھے، ان کے پاس موجود نہ تھے۔ ملاحظہ ہو: [نصب الراية 258/2]
اسی لیے علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: «والمرأة فى ذٰلك كالرجل اذ لا دليل على التفريق»[أحكام الجنائز ص/85] ”اس مسئلہ میں عورت بھی مرد کی طرح ہے، عورت اور مرد کے کفن میں فرق کی کوئی دلیل موجود نہیں۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تین سفید سوتی سحولی چادروں میں کفن دیا گیا، اس میں نہ قمیص تھی اور نہ پگڑی۔ [مسنداحمد 40/6، 118]
لہذا مسنون یہی ہے کہ میت مرد ہو یا عورت اسے تین کپڑوں میں دفنا دیا جائے۔ «والله اعلم!»
۔۔۔ اصل مضمون۔۔۔
احكام و مسائل
احکام و مسائل، حدیث/صفحہ نمبر: 999
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3157
فوائد ومسائل: یہ روایت ضعیف ہے۔ عورت کے لئے کفن میں مرد سے زیادہ کپڑا استعمال کرنے کا جواز کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ لہذا مردوعورت کفن کے کپڑوں میں برابر ہیں۔ واللہ اعلم۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3157