ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جب زید بن حارثہ، جعفر بن ابوطالب اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم قتل کر دئیے گئے (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی) تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں بیٹھ گئے، آپ کے چہرے سے غم ٹپک رہا تھا، اور واقعہ کی تفصیل بتائی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجَنَائِزِ/حدیث: 3122]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3122
فوائد ومسائل: اہل میت اور ان کے اعزہ و احباب کو ایسے موقع پر بیٹھنا اور اکھٹے ہونا مباح ومستحب ہے لیکن یہ کوئی ضروری نہیں کہ زمین ہی پر بیٹھا جائے بلکہ حسب احوال چٹایئوں چار پایئوں یا کرسیوں پر بیٹھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ تاہم تین دن تک اس طرح تعزیت کےلئے آنے جانے والوں کی خاطر بیٹھنے کو لازم سمجھنا غلط ہے۔ کیونکہ یہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے۔ کہ اسے ضروری سمجھا جائے۔ اسے زیادہ سے زیادہ ایک جائز رواج ہی کیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم بالصواب۔ علاوہ ازیں ان ایام میں تعزیت کے لئے آنے والا شخص حاضرین سمیت پہلے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کو ضروری سمجھتا ہے۔ اور جو شخص ایسا نہیں کرتا۔ یا اہل میت اس طریقے کو اختیار نہیں کرتے۔ تو برا منایا جاتا ہے۔ اور اس شخص کو یا اہل میت کو دعا کا منکر باور کرایا جاتا ہے۔ حالانکہ مسئلہ دعا کی اہمیت و فضیلت کا نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ تو مسلمہ ہے۔ دعا کی اہمیت وفضیلت کا کوئی منکر نہیں اصل مسئلہ مسنون طریقے سے دعا کرنے کا ہے۔ با ر بارہاتھ اٹھا کردعا کرنا ایک رسم ہے۔ اور اس میں اکثر کچھ پڑھا بھی نہیں جاتا۔ یا صرف فاتحہ خوانی کر لی جاتی ہے۔ حالانکہ سورہ فاتحہ میں میت کےلئے مغفرت کی دعا کا کوئی پہلو ہی نہیں ہے۔ گویا یہ طریقہ ایک تو مسنون نہیں ہے۔ صرف رسم ہے دوسری میت کے حق میں اس طرح مغفرت کی دعا بھی بالعموم نہیں ہوتی۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے تو پھر تعزیت کا مسنون طریقہ کیاہے؟ وہ طریقہ حسب ذیل ہے۔ اول تو میت کے اہل خانہ کا اس طرح اہتمام کے ساتھ مسلسل چند دن بیٹھنا ہی ایسا عمل ہے۔ جس کا ثبوت عہد رسالت وعہد صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین وتابعین میں ملنا نہایت مشکل ہے۔ اصل بات جنازے اور تدفین میں شریک ہوکر میت کے لئے مغفرت کی دعا کرنا ہے۔ اس کے بعد اہل میت کےلئے خاص طور پر دریاں یا صفیں بچھا کر بیٹھنا محل نظر ہے۔ تدفین کے بعد ان کو اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوجانا چاہیے۔ اور اہل میت جب بھی اور جہاں بھی ملیں ان سے تعزیت کر لی جائے۔ تعزیت کن الفاظ میں اور کس طرح کی جائے؟ بہتر یہ ہے کہ اہل میت کو سب سے پہلے صبر ورضا کی تلقین کی جائے۔ (إناللہ و إنا إلیه راجعون) پڑھ کرسب کےلئے اسی انجام سے دو چار ہونے کو واضح کیا جائے۔ میت کے حق میں بغیر ہاتھ اٹھائے مغفرت کی دعا کی جائے۔ اوراہل میت کےلئے صبر جمیل کی۔ اور وہ دعایئں پڑھی جایئں۔ جو اس موقع پر نبی کریمﷺ سے ثابت ہیں۔ مثلا ً نبی کی صاحب زادی حضرت زینب کا بچہ عالم نزع میں تھا۔ انہوں نے نبی کریمﷺ کو بلانے کےلئے پیغام بھیجا۔ تو آپ نے انھیں صبر واحتساب کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: أَخَذ ولَهُ ما أَعطَى، وكلُّ شَيءٍ عِنده بِأجَل مُسمَّى فَلتَصبِر ولتَحتَسِب (صحیح بخاری، الجنائز، باب: 32 حدیث: 1284) بے شک اللہ ہی کاہے۔ جو اس نے لیا اور اسی کاہے۔ جو اس نے دیا۔ اور ہر ایک کےلئے اس کے پاس ایک وقت مقرر ہے۔ جب حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہوگئے۔ تو نبی کریمﷺ ان کی اہلیہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تعزیت کےلئے تشریف لے گئے اوران الفاظ می دعا فرمائی۔ «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لأَبِى سَلَمَةَ وَارْفَعْ دَرَجَتَهُ فِى الْمَهْدِيِّينَ وَاخْلُفْهُ فِى عَقِبِهِ فِى الْغَابِرِينَ وَاغْفِرْ لَنَا وَلَهُ يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ وَافْسَحْ لَهُ فِى قَبْرِهِ. وَنَوِّرْ لَهُ فِيهِ»(صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 920) اے اللہ! ابوسلمہ کی مغفرت فرما اس کے درجے مہدین میں بلند فرما۔ اور اس کے پیچھے رہ جانے والوں میں اس کے بعد تو ان کا جانشین بن اور ہماری اور اس کی مغفرت فرما۔ اے رب العالمین اس کی قبر میں کشادگی عطا فرما اور اس کو اس کےلئے منور فرما دے۔ جس کو یہ مسنون دعایئں اور الفاظ یاد نہ ہوں۔ تو وہ اپنی زبان میں ہاتھ اٹھائےبغیر میت کے لئے مغفرت کی اور اہل خانہ کےلئے صبر جمیل کی دعا کرے۔ اور ا س قسم کی باتیں کرے۔ جس سے پسماندگان کو تسلی ملے۔ اور ان کے دل وماغ سے صدمے کے اثرات کم ہوں۔ اس موقع پر بھی چونکہ نبی کریمﷺ سے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ثابت نہیں ہے، اس لئے اس رواج سے بچا جائے اور سنت کے مطابق بغیر ہاتھ اٹھائے دعا کی جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3122
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1848
´میت پر رونا منع ہے۔` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب زید بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ (رضی اللہ عنہم) کے مرنے کی خبر آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے (اور) آپ (کے چہرے) پر حزن و ملال نمایاں تھا، میں دروازے کے شگاف سے دیکھ رہی تھی (اتنے میں) ایک شخص آیا اور کہنے لگا: جعفر (کے گھر) کی عورتیں رو رہی ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”جاؤ انہیں منع کرو“، چنانچہ وہ گیا (اور) پھر (لوٹ کر) آیا اور کہنے لگا: میں نے انہیں روکا (لیکن) وہ نہیں مانیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں منع کرو“(پھر) وہ گیا (اور پھر لوٹ کر آیا، اور کہنے لگا: میں نے انہیں روکا (لیکن) وہ نہیں مان رہی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ ان کے منہ میں مٹی ڈال دو“، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے کہا: اللہ تعالیٰ اس شخص کی ناک خاک آلود کرے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہے، تو اللہ کی قسم! نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پریشان کرنا چھوڑ رہا ہے، اور نہ تو یہی کر سکتا ہے (کہ انہیں سختی سے روک دے)۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1848]
1848۔ اردو حاشیہ: ➊ کسی قریبی کی موت پر انسان گھر سے باہر کسی کھلی جگہ غم کی حالت میں بیٹھ سکتا ہے کہ دوسرے لوگ بھی افسوس کے لیے آئیں اور اس کے پاس بیٹھیں اور تعزیت کریں۔ ➋ کسی کی شہادت پر بھی اظہار غم کیا جائے گا اگرچہ یہ اعلیٰ درجے کی موت ہے، مگر ہے تو موت ہی جو غم و اندوہ کا موجب ہے۔ ➌ ”اللہ اس بے سمجھ کو ذلیل کرے“ انسان کو اسی کام میں داخل دینا چاہیے جو اس کے بس میں ہو۔ ظاہر ہے عورتوں کو ان کا کوئی قریبی ہی چپ کرا سکتا ہے۔ یہ اجنبی کیا کر سکتا تھا؟ لہٰذا اسے اطلاع کرنے کے بعد آرام سے بیٹھ جانا چاہیے تھا تاکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسی متعلق شخص کو بھتیجے مگر اس نے خود آرام کیا نہ آپ کو آرام سے بیٹھنے دیا، حالانکہ یہ غم کا موقع تھا۔ ایسے موقع پر زیادہ شور و غل مناسب نہیں۔ بہرصورت وہ شخص نیک تھا۔ ثابت ہوا میت پر آواز کے ساتھ رونا جائز نہیں، تبھی آپ نے روکنے کا حکم دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ عمل درآمد نہ کراس کا۔ ➍ تاکید کے لیے قسم اٹھانا جائز ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1848
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2161
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس زید بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب اور عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبر پہنچی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح بیٹھے کہ آپﷺ پر غم کے آثار محسوس ہو رہے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں دروازے کی دراڑ سے دیکھ رہی تھی تو آپﷺ کے پاس ایک آدمی آ کرکہنے لگا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! جعفر کے خاندان کی عورتیں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2161]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جعفر کی رشتہ دار عورتیں فطرتی اور طبعی رونے سے بلند آواز سے رو رہی تھیں اور شدت غم وحزن کی بنا پر انہیں اس کا احساس نہیں ہو رہا تھا۔ اس لیے وہ دوسرے کے روکنے پر بھی باز نہیں آ رہی تھیں۔ اور آپﷺ شدت غم کے باوجود اللہ تعالیٰ کی مشیت پر راضی تھے۔ اور اپنے تین عزیز اور محبوب ساتھیوں کی شہادت پر دینی اور شرعی امور کی پاسداری فرما رہے تھے اور آخر کار بتانے والے کو قوت کے استعمال کا حکم دیا کہ انہیں زبردستی روکو، ان کے منہ میں مٹی ڈال دو لیکن وہ اس قدر جرأت اور ہمت نہیں کر سکتا تھا۔ اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خواہش کی کہ وہ آپﷺ کو بار بار بتانے سے باز آ جائے جس سے معلوم ہوتا ہے وہ صرف آواز ہی بلند کر رہی تھیں۔ بین وغیرہ نہیں کر رہی تھیں وگرنہ دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ان کو روکتے، اور اس آدمی کا مقصد سد ذریعہ تھا کہ یہ کہیں بین ہی نہ شروع کر دیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2161
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1305
1305. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب زید بن حارثہ، جعفرطیار اور عبد اللہ بن رواحہ ؓ کے شہید ہونے کہ خبر پہنچی تو نبی ﷺ بیٹھے اور آپکی ذات گرامی سے حزن و رنج ظاہر ہو رہا تھا۔ میں اس منظر کو دروازے کے سوراخ سے دیکھ رہی تھی۔ ایک شخص آپ کے پاس آیا اور عرض کرنے لگا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ!جعفرطیار ؓ کی عورتیں رورہی ہیں۔ آپ نے اسے حکم دیا کہ انھیں رونے سے منع کرے وہ شخص گیا اور واپس آکر کہنے لگا:میں نے انھیں منع کیا ہے، لیکن وہ باز نہیں آتیں۔ آپ نے اسے دوبارہ فرمایا کہ وہ انھیں منع کرے۔ وہ دوبارہ گیا اور واپس آکر کہنے لگا:اللہ کی قسم!وہ مجھ پر غالب آگئیں۔۔۔یا ہم پر غالب آگئیں۔ محمد بن عبد اللہ بن حو شب نے الفاظ کے متعلق شک کا اظہار کیا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا:نبی ﷺ نے فرمایا:”جاؤ ان کے منہ میں خاک جھونک دو۔“ میں نے کہا: اللہ تیری ناک خاک آلود کرے۔!جس کام کا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1305]
حدیث حاشیہ: زید بن حارثہ کی والدہ کا نام سعدیٰ اور باپ کا نام حارثہ اور ابواسامہ کنیت تھی۔ بنی قضاعہ کے چشم وچراغ تھے جو یمن کا ایک معزز قبیلہ تھا۔ بچپن میں قزاق آپ کو اٹھاکر لے گئے۔ بازار عکاظ میں غلام بن کرچار سودر ہم میں حکیم بن حزام کے ہاتھ فروخت ہوکر ان کی پھوپھی ام المؤمنین خدیجہ ؓ کی خدمت میں پہنچ گئے اور وہاں سے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آگئے۔ ان کے والد کو یمن میں خبر ہوئی تو وہ دوڑے ہوئے آئے اور دربار نبوت میں ان کی واپسی کے لیے درخواست کی۔ آنحضرت ﷺ نے زید بن حارثہ کو کلی اختیار دے دیا کہ اگر وہ گھرجانا چاہیں تو خوشی سے اپنے والد کے ساتھ چلے جائیں اور اگر چاہیں تو میرے پاس رہیں۔ زید بن حارثہ ؓ نے اپنے گھر والوں پر آنحضرت ﷺ کو ترجیح دی اور والد اور چچا کے ہمراہ نہیں گئے۔ اس لیے کہ آنحضرت ﷺ کے احسانات اور اخلاق فاضلہ ان کے دل میں گھر کر چکے تھے۔ اس واقعہ کے بعد آنحضرت ﷺ ان کو مقام حجر میں لے گئے اور حاضرین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگو! گواہ رہو میں نے زید کو اپنا بیٹا بنا لیا۔ وہ میرے وارث ہیں اور میں اس کا وارث ہوں۔ اس کے بعد وہ زید بن محمد پکارے جانے لگے۔ یہاں تک کہ قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی کہ متبنٰی لڑکوں کو ان کے والدین کی طرف منسوب کرکے پکارو۔ اللہ کے یہاں انصاف کی بات ہے۔ پھر وہ زیدبن حارثہ کے نام سے پکارے جانے لگے۔ آنحضرت ﷺ نے ان کا نکاح ام ایمن اپنی آزاد کردہ لونڈی سے کرادیا تھا۔ جن کے بطن سے ان کا لڑکا اسامہ پیدا ہوا۔ ان کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ اللہ نے قرآن مجید میں ایک آیت میں ان کا نام لے کر ان کا ایک واقعہ بیان فرمایا ہے جب کہ قرآن مجید میں کسی بھی صحابی کا نام لے کر کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ غزوئہ موتہ 8ھ میں یہ بہادرانہ شہید ہوئے۔ اس وقت ان کی عمر 55 سال کی تھی۔ ان کے بعد فوج کی کمان حضرت جعفر طیار ؓ نے سنبھالی۔ یہ نبی کریم ﷺ کے محترم چچا ابو طالب کے بیٹے تھے۔ والدہ کا نام فاطمہ تھا۔ یہ شروع ہی میں اکتیس آدمیوں کے ساتھ اسلام لے آئے تھے۔ حضرت علی ؓ سے دس سال بڑے تھے۔ صورت اور سیرت میں رسول اللہ ﷺ سے بہت ہی مشابہ تھے۔ قریش کے مظالم سے تنگ آکر ہجرت حبشہ میں یہ بھی شریک ہوئے اور نجاشی کے دربار میں انہوں نے اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں ایسی پُرجوش تقریر کی کہ شاہ حبش مسلمان ہوگیا۔ 7ھ میں یہ اس وقت مدینہ تشریف لائے جب فرزندان توحید نے خیبر کو فتح کیا۔ آپ نے ان کو اپنے گلے سے لگالیا اور فرمایا کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ مجھے تمہارے آنے سے زیادہ خوشی حاصل ہوئی ہے یافتح خیبر سے ہوئی ہے۔ غزوئہ موتہ میں یہ بھی بہادرانہ شہید ہوئے اور اس خبر سے آنحضرت ﷺ کو سخت ترین صدمہ ہوا۔ حضرت جعفر ؓ کا گھر ماتم کدہ بن گیا۔ اسی موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا جو یہاں حدیث میں مذکور ہے۔ ان کے بعد حضرت عبداللہ بن ابی رواحہ ؓ نے فوج کی کمان سنبھالی۔ بیعت عقبہ میں یہ موجود تھے۔ بدر‘ احد‘ خندق اور اس کے بعد کے تمام غزوات میں سوائے فتح مکہ اور بعد والے غزوات میں یہ شریک رہے۔ بڑے ہی فرمانبردار اطاعت شعار صحابی تھے۔ قبیلہ خزرج سے ان کا تعلق تھا۔ لیلتہ العقبہ میں اسلام لاکر بنوحارثہ کے نقیب مقرر ہوئے اور حضرت مقداد بن اسود کندی ؓ سے سلسلہ مؤاخات قائم ہوا۔ فتح بدرکی خوشخبری مدینہ میں سب سے پہلے لانے والے آپ ہی تھے۔ جنگ موتہ میں بہادرانہ جام شہادت نوش فرمایا۔ ان کے بعد آنحضرت ﷺ کی پیش گوئی کے مطابق اللہ کی تلوار حضرت خالد ؓ نے قیادت سنبھالی اور ان کے ہاتھ پر مسلمانوں کو فتح عظیم حاصل ہوئی۔ حضرت امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت فرمایا کہ پکارکر‘ بیان کرکرکے مرنے والوں پر نوحہ وماتم کرنا یہاں تک ناجائز ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت جعفر ؓ کے گھر والوں کے لیے اس حرکت نازیبا نوحہ وماتم کرنے کی وجہ سے ان کے منہ میں مٹی ڈالنے کا حکم فرمایا جو آپ ﷺ کی خفگی کی دلیل ہے اور یہ ایک محاورہ ہے جو انتہائی ناراضگی پر دلالت کرتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1305
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1299
1299. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:جب نبی کریم ﷺ کے پاس حضرت زید بن حارثہ، حضرت جعفر اورحضرت ابن رواحہ ؓ کے شہید ہونے کی خبر آئی تو آپ غمگین ہوکر بیٹھ گئے۔ میں دروازے کی دراڑ سے دیکھ رہی تھی کہ ایک شخص آپ کے پاس آیا جس نے حضرت جعفر ؓ کی عورتوں کے رونے دھونے کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے اسے حکم دیا کہ انھیں گریہ وزاری سے منع کرو، چنانچہ وہ گیا اورواپس آکر عرض کیا کہ وہ نہیں مانتیں۔ آپ نے پھر یہی فرمایا:”انھیں منع کرو۔“ وہ تیسری مرتبہ واپس آکر کہنے لگا:اللہ کے رسول ﷺ! اللہ کی قسم وہ ہم پر غالب آگئیں اور نہیں مانتیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا:آخر کار رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”جا!ان کے منہ میں خاک جھونک دے۔“ میں نے کہا:اللہ تیری ناک خاک آلود کرے! جس کام کاتجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا وہ بھی نہیں کرتا اور(بار بار آکر) رسول اللہ ﷺ کو تکلیف دینے سے بھی باز نہیں آتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1299]
حدیث حاشیہ: (1) اس عنوان کا مطلب یہ ہے کہ اگر مصیبت زدہ آدمی اپنے گھر میں صبر سے بیٹھ جائے اور لوگ آ کر تعزیت کرتے رہیں تو یہ جاہلیت والی رسم نہیں ہو گی جو شرعا ممنوع ہے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت جعفر ؓ کی شہادت پر اہل خانہ کی عورتوں کا رونا دھونا حرام کے درجے میں نہیں تھا کیونکہ اگر حرام ہوتا تو رسول اللہ ﷺ مذکورہ آدمی کے علاوہ کسی دوسرے آدمی کو بھیج کر اس کام سے انہیں روکتے، کیونکہ آپ کا باطل کو برداشت کرنا اور اسے ثابت رکھنا محال ہے۔ اور نہ صحابیات ہی کے بارے میں یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ وہ ایک فعل حرام پر اصرار کریں اور بار بار روکنے کے باوجود اس سے باز نہ آئیں۔ اور اس مباح قسم کے رونے سے اس لیے منع کیا جاتا تھا کہ وہ تحریم کے درجے تک نہ پہنچ جائیں۔ (3) حضرت عائشہ ؓ کی دانش مندی اور معاملہ فہمی بھی قابل داد ہے کہ انہوں نے صحیح اندازہ لگایا اور اپنے دل میں کہا کہ یہ شخص بھی عجیب ہے کہ نہ تو رسول اللہ ﷺ کی مرضی پر عمل کرتے ہوئے عورتوں کو سمجھا بھجا کر آہ و بکا سے روکتا ہے اور نہ اس سے باز ہی رہتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو بار بار آ کر اطلاع دے اور پریشان کرے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1299
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4263
4263. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب حضرت ابن حارثہ، جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنھم کے شہید ہونے کی خبر پہنچی تو رسول اللہ ﷺ (مسجد میں) بیٹھ رہے جبکہ آپ میں حزن و ملال کے آثار معلوم ہوتے تھے۔ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: میں دروازے کے سوراخ میں سے دیکھ رہی تھی کہ ایک شخص نے آپ کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! حضرت جعفر ؓ کے خاندان کی عورتیں رو رہی ہیں۔ آپ نے اسے حکم دیا کہ انہیں رونے دھونے سے منع کرو، چنانچہ وہ آدمی گیا اور واپس آ کر کہنے لگا: میں نے ان کو منع کیا ہے لیکن وہ میرا کہنا نہیں مانتیں۔ آپ نے پھر اسے وہی حکم دیا۔ وہ گیا اور واپس آ کر کہنے لگا: اللہ کی قسم! وہ ہم پر غالب آ گئی ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ان کے منہ میں مٹی ڈالو۔“ حضرت ام المومنین نے فرمایا کہ میں نے کہا: اللہ تعالٰی تیری ناک خاک آلود۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4263]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ کی شہادت اللہ کے ہاں بہت اعزا ز واحترام کا باعث تھی لیکن خواتین خانہ فطری تقاضوں کے ہاتھوں مجبور ہوکر رونے پیٹنے لگیں۔ یہ یاد رہے کہ رونے کی ممانعت بھی اس وقت ہے جب رونا نوحے کے ساتھ ہو۔ ممکن ہے کہ وہ عورتیں بے اختیار ہوکررورہی ہیں، یاانھوں نے خیال کیا ہوکہ مذکورہ آدمی اپنی طرف سے کہہ رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے کوئی حکم نہیں دیا، اس لیے انھوں نے اس کے کہنے کی کوئی پروانہ کی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ان کے منہ میں مٹی ڈالو۔ “ اس کے معنی یہ ہیں کہ انھیں ان کے حال پر رہنے دو۔ ان کے منہ میں مٹی جھونکو، نہیں مانتی تو نہ مانیں۔ اس سے حقیقی معنی بھی مراد ہوسکتے ہیں کہ ان کے منہ میں مٹی ڈالو۔ چونکہ وہ بڑے خاندان کی معزز خواتین تھیں، اس لیے مٹی ڈالنے کی اسے جراءت نہ ہوئی۔ 2۔ واضح رہے کہ رونے والی خواتین حضرت جعفر ؓ کی بیویاں نہیں تھیں کیونکہ ان کی صرف ایک ہی بیوی حضرت اسماء بنت عمیس ؓ مشہور ہے۔ ممکن ہے کہ خاندان کی دیگرخواتین ہوں۔ (فتح الباري: 644/7۔ )
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4263