ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حارث بن عامر بن نوفل کے بیٹوں نے خبیب رضی اللہ عنہ کو خریدا ۱؎ اور خبیب ہی تھے جنہوں نے حارث بن عامر کو جنگ بدر میں قتل کیا تھا، تو خبیب ان کے پاس قید رہے (جب حرمت کے مہینے ختم ہو گئے) تو وہ سب ان کے قتل کے لیے جمع ہوئے، خبیب بن عدی نے حارث کی بیٹی سے استرہ طلب کیا جس سے وہ ناف کے نیچے کے بال کی صفائی کر لیں، اس نے انہیں استرہ دے دیا، اسی حالت میں اس کا ایک چھوٹا بچہ خبیب کے پاس جا پہنچا وہ بےخبر تھی یہاں تک کہ وہ ان کے پاس آئی تو دیکھا کہ وہ اکیلے ہیں، بچہ ان کی ران پر بیٹھا ہوا ہے، اور استرہ ان کے ہاتھ میں ہے، یہ دیکھ کر وہ سہم گئی اور ایسی گھبرائی کہ خبیب بھانپ گئے اور کہنے لگے: کیا تم ڈر رہی ہو کہ میں اسے قتل کر دوں گا، میں ایسا ہرگز نہیں کر سکتا ۲؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس قصہ کو شعیب بن ابوحمزہ نے زہری سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ مجھے عبیداللہ بن عیاض نے خبر دی ہے کہ حارث کی بیٹی نے انہیں بتایا کہ جب لوگوں نے خبیب کے قتل کا متفقہ فیصلہ کر لیا تو انہوں نے موئے زیر ناف صاف کرنے کے لیے اس سے استرہ مانگا تو اس نے انہیں دے دیا ۳؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجَنَائِزِ/حدیث: 3112]
وضاحت: ۱؎: سو اونٹ کے بدلہ میں خریدا تاکہ انہیں قتل کر کے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لیں۔ ۲؎: کیونکہ اسلام میں کسی بے گناہ بچے کا قتل جائز نہیں۔ ۳؎: پھر ان کافروں نے خبیب رضی اللہ عنہ کو تنعیم میں سولی دے دی، جو حدود حرم سے باہر ہے، خبیب نے اتنی مہلت مانگی کہ وہ دو رکعت ادا کر سکیں تو کافروں نے انہیں مہلت دے دی، آپ نے دو رکعت ادا کی پھر یہ شعر پڑھے: «فلست أبالي حين أقتل مسلمًا على أي جنب كان في الله مصرعي وذلك في ذات الإله وإن يشأ يبارك على أوصال شلو ممزع»(جب میں مسلمان ہونے کی حالت میں مارا جاؤں تو مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ کس پہلو پر ہوں۔ میرا یہ قتل اللہ کے لئے ہے، اگر اللہ چاہے تو پارہ پارہ عضو کے جوڑ جوڑ میں برکت دے دے۔)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3112
فوائد ومسائل: مریض کو جب اندازہ ہو کہ اس کا وقت آخر آن پہنچا ہے۔ تو چاہیے کہ وہ اپنی ظاہری طہارت اور صفائی کا اہتمام کرلے۔ یعنی ناخن تراش لے۔ مونچھیں کاٹ لے۔ بغلوں اور زیر ناف کی صفائی کرلے۔ تاکہ جب وہ اللہ کےحضور پیش ہو تو اس کا وجود بھی مسنون طہارت کا مظہر ہ۔ لیکن اگر کوئی قریب المرگ شخص بالوں وغیر ہ کی صفائی نہ کرسکا ہو۔ تو پھر ا کو اس کے حال ہی میں رہنے دے دیا جائے۔ کیونکہ بعد الموت اس طرح صفائی کا کوئی حکم کسی حدیث سے ثابت نہیں۔ غالباً اسی لئے امام مالک وغیرہ نے اسے بدعات میں شمار کیا ہے۔ (المدونة الکبریٰ:256/1، و أحکام الجنائز للأباني، ص:308)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3112