معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جس نے اپنی گردن میں جزیہ کا قلادہ ڈالا (یعنی اپنے اوپر جزیہ مقرر کرایا) تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے بری ہو گیا (یعنی اس نے اچھا نہ کیا)۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ/حدیث: 3081]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11372) (ضعیف الإسناد)» (اس کے راوی محمد بن عیسیٰ سیٔ الحفظ ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف مسلم أبو عبد اللّٰه الخزاعي لم أجد من وثقه وھو مقبول (أي مجهول الحال) انظر التقريب (6658) وفي سماعه من معاذ رضي اللّٰه عنه نظر انوار الصحيفه، صفحه نمبر 113
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3081
فوائد ومسائل: کفار اپنی زیرکاشت زمینوں سے جو حصہ ادا کرتے ہیں۔ خراج کہلاتا ہے۔ اور علماء نے ایسی زمینوں کی کئی قسمیں لکھی ہیں۔
1۔ مسلمانوں نے کسی زمین کو بذور قوت فتح کیا ہو۔ امام نے اسے مجاہدین میں تقسیم کردیا ہو۔ پھر امام اسے قیمت دے کر ان سے خرید لے اور عام مسلمانوں کے لئے وقف کردے۔ اور کفار کو خراج (ٹھیکے) پر دے دے جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عراق کے دہیاتوں میں کیا تھا۔
2۔ کسی زمین کو صلح سے فتح کیا گیا ہو۔ اس شرط پر کے زمین مسلمانوں کی ہوگی۔ مگر کفار اس میں رہیں گے۔ اور خراج دیں گے۔ یہ زمین مال فے ہوگی۔ اور خراج اس کا کرایہ اجرت یا ٹھیکہ ہوگا۔ جو ان لوگوں کے مسلمان ہوجانے سے ساقط نہیں ہوگا۔
3۔ کوئی علاقہ اس شرط کے ساتھ صلح سے فتح ہوا ہو کہ زمین کفار کی رہے گی۔ مگر وہ خراج ادا کر کے وہاں مقیم رہیں گے۔ ایسے خراج کو جزیہ پر قیاس کیا جائے گا۔ اور ان لوگوں کے مسلمان ہوجانے پر ختم ہوجائے گا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعیدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3081