ابوبکر کے غلام سمیّ کہتے ہیں کہ قعقاع اور زید بن اسلم دونوں نے انہیں سعید بن مسیب کے پاس یہ مسئلہ دریافت کرنے کے لیے بھیجا کہ مستحاضہ عورت کس طرح غسل کرے؟ تو انہوں نے کہا: وہ ایک ظہر سے دوسرے ظہر تک ایک غسل کرے، اور ہر نماز کے لیے وضو کرے، اور اگر استحاضہ کا خون زیادہ آئے تو کپڑے کا لنگوٹ باندھ لے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن عمر اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے کہ وہ ظہر سے ظہر تک ایک غسل کرے، اور اسی طرح داود اور عاصم نے شعبی سے، شعبی نے اپنی بیوی سے، انہوں نے قمیر سے، اور قمیر نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے، مگر داود کی روایت میں لفظ «كل يوم» کا (اضافہ) ہے یعنی ہر روز غسل کرے، اور عاصم کی روایت میں «عند الظهر» کا لفظ ہے اور یہی قول سالم بن عبداللہ، حسن اور عطاء کا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مالک نے کہا: میں سمجھتا ہوں کہ ابن مسیب کی حدیث: «من ظهرٍ إلى ظهرٍ» کے بجائے «من طهرٍ إلى طهرٍ» ہے، لیکن اس میں وہم داخل ہو گیا اور لوگوں نے اسے بدل کر «من ظهرٍ إلى ظهرٍ» کر دیا، نیز اسے مسور بن عبدالملک بن سعید بن عبدالرحمٰن بن یربوع نے روایت کیا ہے، اس میں انہوں نے «من طهر إلى طهر» کہا ہے، پھر لوگوں نے اسے «من ظهرٍ إلى ظهرٍ» میں بدل دیا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 301]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «موطا امام مالک/الطہارة 29 (107)، أخرجہ: سنن الدارمی/الطھارة 84 (837) (صحیح)» (انس، عائشہ اور حسن کے اقوال بھی سنداً صحیح ہیں)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 301
301۔ اردو حاشیہ: ➊ یہ روایت سنداً صحیح ہے، لیکن اس میں صحابہ کے آثار ہی کا بیان ہے جب کہ صحیح حدیث سے طہارت حاصل ہونے کے بعد صرف ایک ہی مرتبہ غسل کا اثبات ہوتا ہے، جیسا کہ اس سے قبل صراحت کی جا چکی ہے۔ ➋ الفاظ کا معنی و مفہوم واضح ہے کہ ”ظہر کے وقت غسل کرے۔“ یعنی روزانہ۔ مگر ”طہر سے طہر تک“ کا معنی یہ ہے کہ ایام طہر شروع ہونے پر ایک غسل کرے جو واجب ہے۔ اور مرفوع احادیث صحیحہ سے یہی بات ثابت ہے۔ ابوبکر بن عربی نے کہا کہ جب ہر نماز کے لیے غسل انتہائی مشکل ہو تو ہر روز ایک وقت غسل کر لیا کرے جبکہ دن خوب گرم ہو اور اس سے مطلوب مزید نظافت ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 301