فضل بن حسن ضمری کہتے ہیں کہ ام الحکم یا ضباعہ رضی اللہ عنہما (زبیر بن عبدالمطلب کی دونوں بیٹیوں) میں سے کسی ایک نے دوسرے کے واسطے سے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تو میں اور میری بہن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا تینوں آپ کے پاس گئیں، اور ہم نے اپنی تکالیف ۱؎ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تذکرہ کیا اور درخواست کی کہ کوئی قیدی آپ ہمیں دلوا دیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بدر کی یتیم لڑکیاں تم سے سبقت لے گئیں (یعنی تم سے پہلے آ کر انہوں نے قیدیوں کی درخواست کی اور انہیں لے گئیں)، لیکن (دل گرفتہ ہونے کی بات نہیں) میں تمہیں ایسی بات بتاتا ہوں جو تمہارے لیے اس سے بہتر ہے، ہر نماز کے بعد (۳۳) مرتبہ اللہ اکبر، (۳۳) مرتبہ سبحان اللہ، (۳۳) مرتبہ الحمداللہ، اور ایک بار «لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شىء قدير» کہہ لیا کرو“۔ عیاش کہتے ہیں کہ یہ (ضباعہ اور ام الحکم رضی اللہ عنہما) دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چچا زاد بہنیں تھیں ۲؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ/حدیث: 2987]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15912، 15314)، ویأتی ہذا الحدیث فی الأدب (5066) (ضعیف)» (اس حدیث کی البانی نے صحیحة 2؍ 188، اور صحیح ابی داود 2644، میں پہلے تصحیح کی تھی، بعد میں ابن ام الحکم کی جہالت کی وجہ سے اسے ضعیف قرار دیا، ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود 2؍ 424)
وضاحت: ۱؎: مفلسی کے سبب سے ہمیں کوئی غلام یا لونڈی میسر نہیں ہے، سارے کام اپنے ہاتھ سے خود کرنے پڑتے ہیں۔ ۲؎: یعنی زبیر بن عبد المطلب کی بیٹیاں تھیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن الفضل بن الحسن الضمري حسن الحديث
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2987
فوائد ومسائل: 1۔ ان سیدات کو اگرکچھ ملتا تو خمس سے ملتا، مگرشائد غنائم وغیرہ کے ساتھ وہ سب بھی شہدائے بدر کے یتیم بچوں میں تقسیم ہوچکا تھا۔
2۔ نبی کریم ﷺ مادی تعاون کےمعاملے میں زیادہ ضرورت مندوں خصوصا شہداء کے اہل وعیال کو اولیت دیا کرتے تھے۔ اور اپنے عزیزواقارب کے متعلق آپﷺ کی ترجیح یہی تھی کہ وہ بقدر گزران اور قناعت کی زندگی گزاریں۔
3۔ سیدات اہل بیت عام مسلمانوں کی خواتین حتیٰ کہ امہات المومنین سبھی اپنے اپنے گھروں میں گھرداری کے تمام کام سر انجام دیتی تھیں۔ بعض فقہاء کا یہ کہنا کہ بیوی پر اپنے شوہر کی دلداری کے علاوہ اور کچھ واجب نہیں۔ (خیرالقرون کے اس تعامل کے اور آئندہ حدیث میں مذکور رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے خلاف ہے۔
4۔ اللہ کا زکراوراس کی پابندی دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں خیروبرکات کاباعث ہے جبکہ خادم کا فائدہ صرف دنیا تک ہی محدود ہے۔ اور آخرت میں جوابدہی کا معاملہ اس پر مستزاد ہے۔
5۔ اس روایت میں یہ نکتہ بھی ہے کہ دن بھر کی محنت سے جو تکان لاحق ہوتی ہے۔ اس کا ازالہ خادم ہونے کی صورت میں اس سے جو راحت مل سکتی ہے۔ ویسی ہی راحت ان تسبیحات سے بھی مل سکتی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2987