ابوطفیل کہتے ہیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ سے اپنی میراث مانگنے آئیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”اللہ عزوجل جب کسی نبی کو کوئی معاش دیتا ہے تو وہ اس کے بعد اس کے قائم مقام (خلیفہ) کو ملتا ہے“، (یعنی اس کے وارثوں کو نہیں ملتا)۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ/حدیث: 2973]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 6599)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/4، 6، 9) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی دنیا میں لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا جاتا ہے، دنیا کا مال حاصل کرنے کے لئے نہیں، اس لئے جو مال دولت اس کو اس کی زندگی میں مل جائے، وہ بھی اس کی وفات کے بعد صدقہ ہو گا، تاکہ لوگوں کو یہ گمان نہ ہو کہ یہ اپنے وارثوں کے لئے جمع کرنے میں مصروف تھا۔ قرآن مجید میں جو زکریا علیہ السلام کا قول منقول ہے «يرثني ويرث من آل يعقوب»(سورۃ مریم: ۶) اور جو یہ فرمایا گیا ہے «وورث سليمان»(سورۃ النمل: ۱۳) تو اس سے مراد علم اور نبوت کی وراثت ہے، نہ کہ دنیا کے مال کی۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2973
فوائد ومسائل: ایک یہ حدیث حسن درجہ کی ہے۔ اور علامہ خطابی کہتے ہیں کہ وہ حضرات جو کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خمس میں سے 5/4 خلیفہ کا ہوتا ہے۔ ان کا استدلال اسی روایت سے ہے۔
2۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مال میں وراثت نہ ہونے کی حکمت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت لوگوں ک دلوں میں یہ شبہ پیدا نہ ہو کہ اس شخص کے دعوائے رسالت سے اصل مقصود تو اس کا مال ودولت کا جمع کرنا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2973