عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قول: «والذين عقدت أيمانكم فآتوهم نصيبهم» کا قصہ یہ ہے کہ جب مہاجرین مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے آئے تو اس مواخات (بھائی چارہ) کی بنا پر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار و مہاجرین کے درمیان کرا دی تھی وہ انصار کے وارث ہوتے (اور انصار ان کے وارث ہوتے) اور عزیز و اقارب وارث نہ ہوتے، لیکن جب یہ آیت «ولكل جعلنا موالي مما ترك»”ماں باپ یا قرابت دار جو چھوڑ کر مریں اس کے وارث ہم نے ہر شخص کے مقرر کر دیے ہیں“(سورۃ النساء: ۳۳) نازل ہوئی تو «والذين عقدت أيمانكم فآتوهم نصيبهم» والی آیت کو منسوخ کر دیا، اور اس کا مطلب یہ رہ گیا کہ ان کی اعانت، خیر خواہی اور سہارے کے طور پر جو چاہے کر دے نیز ان کے لیے وہ (ایک تہائی مال) کی وصیت کر سکتا ہے، میراث ختم ہو گئی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْفَرَائِضِ/حدیث: 2922]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الکفالة 2 (2292)، تفسیر سورة النساء 7 (2292)، الفرائض 16 (6747)، (تحفة الأشراف: 5523) (صحیح)»
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2922
فوائد ومسائل: قال نسختھا کا بظاہر مفہوم یہ ہے کہ آیت (وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ) نے (وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا۔ ۔ ۔ ۔ الایة) کو منسوخ کر دیا۔ حالانکہ ا س کے برعکس ہے۔ (َلِكُلٍّ جَعَلْنَا) نے میراث کے اس حکم کو منسوخ کردیا جس پر (وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ) دلالت کرتی ہے۔ اب اس قسم کے عہد وپیمان سے ایک دوسرے کا وارث کوئی نہیں ہوگا۔ البتہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون ہمدردی نہ صرف جائز بلکہ نہایت مستحب اور پسندیدہ عمل ہے۔ (عون المعبود)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2922