الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كِتَاب الْفَرَائِضِ
کتاب: وراثت کے احکام و مسائل
15. باب فِي الْمَوْلُودِ يَسْتَهِلُّ ثُمَّ يَمُوتُ
15. باب: بچہ روتے ہوئے یعنی زندہ پیدا ہو پھر مر جائے تو اس کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 2920
حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاق، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِذَا اسْتَهَلَّ الْمَوْلُودُ وُرِّثَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بچہ آواز کرے تو وراثت کا حقدار ہو جائے گا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْفَرَائِضِ/حدیث: 2920]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 14840) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی پیدا ہونے کے بعد بچے میں زندگی کے آثار معلوم ہوں تو ازروئے شرع اس کی میراث ثابت ہو گئی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
ضعيف
ابن إسحاق عنعن
وللحديث شواهد ضعيفة
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 106

   سنن أبي داودإذا استهل المولود ورث
   بلوغ المرام إذا استهل المولود ورث

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2920 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2920  
فوائد ومسائل:
نومولود میں سانس لینے حرکت کرنے، چھینک مارنے یا رونے وغیرہ سے جب ثابت ہو جائے کہ وہ زندہ تھا تو اسے شرعا ً وراثت کا حق ملے گا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2920   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 813  
´فرائض (وراثت) کا بیان`
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب نومولود بچہ آواز نکالے تو وہ وارث قرار پاتا ہے۔ اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 813»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الفرائض، باب في المولود يستهل ثم يموت، حديث:2920، وابن حبان (الإحسان):7 /609، حديث:6000.* ابن إسحاق عنعن وله شواهد ضعيفة.»
تشریح:
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور انھی کی رائے ہی درست معلوم ہوتی ہے‘ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد اور متابعات کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
مزید دیکھیے: (صحیح سنن أبي داود‘ للألباني‘ رقم:۲۹۲۰)
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 813