ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے (جن کا فیض اسے برابر پہنچتا رہتا ہے): ایک صدقہ جاریہ ۱؎، دوسرا علم جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچے ۲؎، تیسرا صالح اولاد جو اس کے لیے دعائیں کرتی رہے“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: 2880]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 14026)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الوصایا 3 (1631)، سنن الترمذی/الأحکام 36 (1376)، سنن النسائی/الوصایا 8 (3681)، مسند احمد (2/316،350، 372) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ایسی خیرات جس کا فائدہ ہمیشہ جاری رہے مثلا مسجد، مدرسہ، کنواں وغیرہ۔ ۲؎: مثلاً دینی تعلیم دینا،کتاب و سنت کے مطابق کتابیں و تفسیریں وغیرہ لکھ جانا۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2880
فوائد ومسائل: تادیر جاری اور باقی رہنے والی اشیاء بطور صدقہ وقف کرجانا جو لوگوں کے لئے خیر کا باعث بنی ہیں۔ صدقہ جاریہ کہلاتی ہیں۔ جب تک یہ موجود رہیں، میت کو ان کا ثواب پہنچتا رہتا ہے۔ جیسے کہ مذکورہ بالا باب اور حدیث میں گزرا ہے۔ اس طرح مسجد مدرسہ سرائے کی تعمیر اور رفائے عامہ کے کام کر جانا علم پھیلانا شاگرد بناجانا اور کتاب تصنیف و تالیف کرنا یا اس کی اشاعت کرنا وقف کرنا از حد عمدہ کار خیر ہیں۔ اور اولاد کی شرعی بنیادوں پر تربیت سب سے بڑھ کر شاندار صدقہ جاریہ ہے، ہر مسلمان کو اس کا حریص ہونا چاہیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2880
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 203
´مرنے کے بعد ثواب کا سلسلہ` «. . . وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةِ أَشْيَاءَ: صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أوعلم ينْتَفع بِهِ أوولد صَالح يَدْعُو لَهُ) رَوَاهُ مُسلم . . .» ”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے سارے کاموں کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے۔ مگر تین کاموں کا ثواب بند نہیں ہوتا ہے بلکہ ان کا ثواب برابر جاری رہتا ہے، صدقہ جاریہ، علم جس سے نفع حاصل کیا جائے، نیک اولاد جو مر جانے کے بعد اس کے حق میں دعا کرتی رہے۔“ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 203]
تخريج الحدیث: [صحيح مسلم 4223، ابوعوانه 3؍191 ح47۔ واللفظ له بزيادة من ”قبل صدقةٍ“]
فقه الحدیث: ➊ مرنے والے کے سارے اعمال ختم ہو جاتے ہیں لیکن اگر وہ مومن مسلمان تھا تو مذکورہ تین اعمال کا اسے مرنے کے بعد بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ ➋ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مردہ دنیا والوں کی باتیں نہیں سنتا اور نہ کچھ دنیا میں سے دیکھتا ہے۔ یاد رہے کہ جس بات کا استثناء ثابت ہے اس پر ایمان لانا واجب ہے، مثلاً یہ ثابت ہے کہ دفن کے بعد واپس جانے والوں کے جوتوں کی آواز مردہ سنتا ہے۔ ديكهئے: [اضواء المصابيح 126] ➌ عالم اور طالب علم کو عام لوگوں پر فضیلت حاصل ہے۔ ➍ وفات کے بعد، مرنے والے کے لئے قرآن خوانی کا اہتمام یا قل، ساتواں اور چالیسواں وغیرہ اسے ذرہ بھر مفید نہیں ہیں، ماسوائے درج بالا تین اعمال کے، لہٰذا اس قسم کی بدعات سے اجتناب کرنا چاہیے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3681
´میت کی طرف سے صدقہ و خیرات کی فضیلت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل بھی ختم ہو جاتا ہے سوائے تین عمل کے (جن سے اسے مرنے کے بعد بھی فائدہ پہنچتا ہے) ایک صدقہ جاریہ، ۱؎ دوسرا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں ۲؎، تیسرا نیک اور صالح بیٹا جو اس کے لیے دعا کرتا رہے۔“[سنن نسائي/كتاب الوصايا/حدیث: 3681]
اردو حاشہ: (1)”صدقہ جاریہ“ یعنی ایسا صدقہ جس کا فائدہ لوگوں کو صدقہ کرنے والے کی وفات کے بعد بھی تادیر پہنچتا رہے۔ جب تک اس کا فائدہ جاری رہے گا‘ تب تک ثواب بھی جاری رہے گا۔ لیکن اس سے مراد وہ صدقہ ہے جو میت نے اپنی زندگی میں خود کیا ہو نہ کہ وہ جو میت کی طرف سے اس کی وفات کے بعد کیا جائے۔ باب کے عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ امام نسائی رحمہ اللہ دوسرا صدقہ مراد لے رہے ہیں لیکن یہ درست نہیں کیونکہ یہاں میت کے اعمال کا ذکر ہے۔ (2)”وہ علم“ مثلاً: تصنیف شدہ کتابیں یا تربیت شدہ شاگرد یا کیسٹیں وغیرہ0 (3)”نیک اولاد“ جس کی اس نے صحیح تربیت کی ہو اور اسے اچھے کاموں کا عادی بنایا ہو۔ (مزید تفصیل سابقہ حدیث میں ملاحظہ فرمائیں۔)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3681
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1376
´وقف کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے: ایک صدقہ جاریہ ۱؎ ہے، دوسرا ایسا علم ہے ۲؎ جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسرا نیک و صالح اولاد ہے ۳؎ جو اس کے لیے دعا کرے۔“[سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1376]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: صدقہ جاریہ یعنی ایسا صدقہ جس کو عوام کی بھلائی کے لیے وقف کردیا جائے، مثلاً سرائے کی تعمیر، کنواں کھدوانا، نل لگوانا، مساجدومدارس اوریتیم خانوں کی تعمیرکروانا، اسپتال کی تعمیر، پُل اورسڑک وغیرہ بنوانا، ان میں سے جو کام بھی وہ اپنی زندگی میں کرجائے یا اس کے کرنے کا ارادہ رکھتا ہووہ سب صدقہ جاریہ میں شمارہوں گے۔
2؎: علم میں لوگوں کو تعلیم دینا، طلباء کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنا، تصنیف وتالیف اور درس وتدریس دعوت وتبلیغ کا سلسلہ قائم کرنا، مدارس کی تعمیرکرنا، دینی کتب کی طباعت اور ان کی نشرواشاعت کا بندوبست کر نا وغیرہ امورسبھی داخل ہیں۔
3؎: نیک اولاد میں بیٹا، بیٹی پوتا، پوتی، نواسا نواسی وغیرہ کے علاوہ روحانی اولاد بھی شامل ہے جنہیں علم دین سکھایا ہو۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1376
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4223
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان جب فوت ہو جاتا ہے، اس کا عمل بند ہو جاتا ہے، مگر تین صورتوں میں، جاری رہنے والا صدقہ، علم جس سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے، اولاد جو اس کے حق میں دعا کرتی ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4223]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان اپنی زندگی میں نیک عمل کرتا ہے، وہ اگرچہ اس کے مرنے پر ختم ہو جاتا ہے، لیکن اگر اس عمل کے اثرات و ثمرات اس کے بعد بھی قائم رہتے ہیں، تو اس کو اس کا اجروثواب ملتا رہتا ہے، خاص کر اولاد اگر وہ اس کی صحیح دین کے مطابق تربیت کرتا ہے، اور اس کے نتیجہ میں، وہ اس کے حق میں دعا یا صدقہ و خیرات کرتی ہے، تو اس کا اجر، اس کو ملتا رہتا ہے، یا اس نے کوئی دینی اور علمی کتاب چھوڑی، اس نے تعلیم و تدریس کے ذریعہ، اہل علم پیدا کیے، کوئی دینی مدرسہ یا مسجد بنائی، وعظ و تبلیغ کے ذریعہ لوگوں میں دین پر عمل کرنے کا جذبہ ابھارا، گویا ہر وہ کام جس کے نتائج و ثمرات پائیدار ہیں، اور اس کے بعد قائم رہیں گے، ان کی موجودگی تک اس کو ثواب ملتا رہے گا۔