عمیر بن قتادۃ لیثی رضی اللہ عنہ (جنہیں شرف صحبت حاصل ہے) کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اللہ کے رسول! کبیرہ گناہ کیا کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ نو ہیں ۱؎“، پھر انہوں نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی جو اوپر بیان ہوئی، اور اس میں: ”مسلمان ماں باپ کی نافرمانی، اور بیت اللہ جو کہ زندگی اور موت میں تمہارا قبلہ ہے کی حرمت کو حلال سمجھ لینے“ کا اضافہ ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: 2875]
وضاحت: ۱؎: یہاں حصر اور استقصاء مقصود نہیں ان کے علاوہ اور بھی متعدد کبیرہ گناہ ہیں جن سے اجتناب ضروری ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف يحيي بن أبي كثيرعنعن وللحديث شواھد ضعيفة عند البيهقي (3/ 409) وغيره وتوجيه الميت إلي القبلة مستحب بالإجماع و للحديث طريق آخر عند النسائي (4017) بلفظ آخر وھو صحيح بالشواهد انوار الصحيفه، صفحه نمبر 104
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2875
فوائد ومسائل: 1۔ کبیرہ گناہ کی معروف تعریفات میں سے یہ ہے کہ ہر وہ عمل جس سے اللہ عزوجل نے منع فرمایا ہو کبیرہ ہوتا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ ہر وہ گناہ جس پردوزخ کی وعید اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت یا دنیا میں کوئی حد لازم کی گئی ہو کبیرہ ہوتا ہے۔ اسی طرح کسی چھوٹے گناہ پر ہمیشگی اخیتار کرنے سے بھی وہ کبیرہ گناہ بن جاتا ہے۔ اس قسم کے گناہ خاص توبہ استغفار کے بغیر معاف نہیں ہوتے۔ جبکہ دیگر چھوٹے گناہ عام فرائض ونوافل اوراذکار سے معاف ہوتے رہتے ہیں۔
2۔ بیت اللہ مرنے پر بھی مسلمانوں کا قبلہ ہے۔ یعنی موت کے وقت اور قبر میں میت کا میت کا منہ قبلہ کی طرف کردینا مسنون ہے۔ (نیل الأوطار، باب من کان آخر قوله لا إله إلا اللہ:23/4، 24)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2875