عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص صحراء اور بیابان میں رہے گا اس کا دل سخت ہو جائے گا، اور جو شکار کے پیچھے رہے گا وہ (دنیا یا دین کے کاموں سے) غافل ہو جائے گا، اور جو شخص بادشاہ کے پاس آئے جائے گا وہ فتنہ و آزمائش میں پڑے گا (اس سے دنیا بھی خراب ہو سکتی ہے اور آخرت بھی)“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّيْدِ/حدیث: 2859]
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (3701) أخرجه الترمذي (2253 وسنده حسن) أبو موسي شيخ يماني: جھله ابن القطان وغيره و وثقه ابن حبان والترمذي فھو حسن الحديث
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2859
فوائد ومسائل: جنگل اور شکار میں انسان آذاد ہوتا ہے۔ اختلاط اور اجتماعیت نہ ہونے کی وجہ سے نماز باجماعت کی فضیلت سے محرومی کے علاوہ علماء اور صالحین کی مجالس بھی میسر نہیں ہوتیں۔ اور نہ کوئی معروف ومنکر ہی کی تنبیہ کرنے والا ہوتا ہے۔ اور اس کا اثرطبعیت کی سختی اور غفلت کی صورت میں ظاہرہوتا ہے۔ جو واضح ہے کہ خسارے کا سودا ہے۔ اور اسی طرح بادشاہ کی مجلس میں بالعموم یا تو اس کی ہاں میں ہاں ملانی پڑتی ہے۔ یا مخالفت مول لینی پڑتی ہے۔ اور دونوں صورتوں میں آزمائش وامتحان ہے۔ إلا ماشاء اللہ۔ اس لئے چاہیے کہ انسان ایسی جگہ سکونت اختیار کرے جہاں دونوں سہولتیں میسر ہوں۔ شہری بھی او ردیہاتی بھی، جیسے کہ شہر کی مضافاتی بستیاں ہوتی ہیں۔ اور یہ استدلال ہے، اس مومن سے جس کا ذکر سورہ یٰس میں ہے۔ (وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَىٰ قَالَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ)(یٰس۔ 20) اور شہر کی ایک جانب سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا کہنے لگا۔ اے میری قوم ان رسولوں کی پیروی کرلو۔ اور مقصد صالح کے بغیر بادشاہوں کی صحبت سے بھی احتراز کرنا چاہیے۔ اور اس سے مراد دنیا دار بے دین قسم کے بادشاہ ہیں۔ مومن بادشاہ کی صحبت میں بلاشبہ کوئی فتنہ نہیں۔ الا ماشاء اللہ۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2859