حمید بن عبدالرحمٰن حمیری کہتے ہیں کہ میری ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں اسی طرح رہا جیسے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے، اس نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے کہ ہم میں سے کوئی ہر روز کنگھی کرے یا غسل خانہ میں پیشاب کرے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 28]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/الطھارة 147 (239)، (تحفة الأشراف: 15554)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/110، 111، 5/369) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (472) وانظر الحديث الآتي (81)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 28
فوائد و مسائل: ➊ غسل خانے میں پیشاب سے بچنا ہی افضل ہے خواہ وہ کچا ہو یا سیمنٹ اور چپس وغیرہ سے بنا ہو کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ پیشاب کے لیے جگہ علیحدہ بنی ہوئی ہو تو کوئی حرج نہیں۔ الغرض طہارت میں بد احتیاطی کی وجہ سے وسوسہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ➋ ہر روز کنگھی سے منع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ عام دنیا داروں کی طرح ظاہری ٹیپ ٹاپ کا بہت زیادہ اہتمام نہیں ہونا چاہیے جیسے کہ عربوں کا عام معمول تھا کہ وہ بال لمبے رکھتے تھے، البتہ سادہ انداز میں کنگھی سے بالوں کو برابر کرنا کہ انسان باوقار نظر آئے ان شاء اللہ مباح ہے۔ عام مفہوم میں کنگھی کرنے کو بھی محدثین کرام نے نہی تنزیہی پر محمول کیا ہے۔ بہرحال مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی ذاتی زیب و زینت کو روزانہ کا معمول نہ بنائے جیسے کہ ہمارے گھروں میں یہ مصیبت در آئی ہے کہ حمام میں آئینہ، کنگھا، تیل و عطر، دروازے پر آئینہ، کنگھا اور ڈریسنگ میز وغیرہ سجے رہتے ہیں۔ کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر روز دو بار کنگھی کرتے تھے۔ ➌ حدیث شریف میں وارد حکم مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کے لیے بھی ہے۔ اگرچہ زیب و زینت ان کے لیے ایک اعتبار سے مطلوب ہے مگر اس میں بھی اعتدال ضروری ہے، نہ یہ کہ انسان ہر وقت اپنی ظاہری اور مصنوعی افزائش حسن ہی پر لگا رہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 28
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 239
´جنبی کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرنے کی ممانعت کا بیان۔` حمید بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں ایک ایسے آدمی سے ملا جو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرح چار سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہا تھا، اس نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ ہم میں سے کوئی ہر روز کنگھی کرے، یا اپنے غسل خانہ میں پیشاب کرے ۱؎، یا شوہر بیوی کے بچے ہوئے پانی سے یا بیوی شوہر کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرے ۲؎، دونوں کو چاہیئے کہ ایک ساتھ لپ سے پانی لیں۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 239]
239۔ اردو حاشیہ: ➊ ہر روز کنگھی کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس شخص کی ضرورت سے زیادہ تزئین کی طرف توجہ ہے جب کہ یہ چیز بہت سی معاشرتی اور اخلاقی خرابیوں کی بنیاد ہے۔ حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، کہتے ہیں: «رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نھی عن الترجل الاغبا»[سنن أبي داود، الترجل، حدیث: 4159] ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کنگھی کرنے سے منع فرمایا ہے مگر ایک دن چھوڑ کر۔“ یعنی بلاناغہ روزانہ کنگھی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اس حدیث کی سند میں اگرچہ خفیف سا ضعف ہے لیکن یہ سنن نسائی کے درج ذیل روایت سے ختم ہو جاتا ہے جس کی صحت کو محقق کتاب نے بھی تسلیم کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی مصر پر مقرر گورنر (عامل) کے ہاں تشریف لے گئے اور وہ بھی صحابیٔ رسول تھے۔ دیکھتے ہیں کہ ان کے بال بکھرے ہوئے ہیں، پوچھا: کیا وجہ ہے، آپ کو پراگندہ حال دیکھتا ہوں جبکہ آپ امیر ہیں۔ انہوں نے جواب دیا: «کان نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ینھانا عن الارفاہ، قلنا: وما الارفاہ؟ قال: الترجل کل یوم»[سنن النسائي، الزینة، حدیث: 5061] ”اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ”إرفاہ“ سے روکا کرتے تھے، ہم نے کہا: ”إرفاہ“ سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے فرمایا: روزانہ کنگھی کرنا۔“ اس حدیث میں بھی روزانہ کنگھی کرنے سے ممانعت کا ذکر ہے، خصوصاً اس نہی کی وجہ سے صحابیٔ رسول فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بھی باوجود یکہ عظیم عہدے پر فائز تھے روزانہ کنگھی نہیں کرتے تھے، حالانکہ انہیں بال بڑے ہونے کی وجہ سے اس کی اشد ضرورت بھی تھی۔ یہ اس بات کی قوی دلیل ہے کہ روزانہ کنگھی کرنا ممنوع ہے اور اس میں ایک درجہ زہد و ورع کا بھی پہلو نمایاں ہے جو یقیناًً ایسے افراد کے لیے مطلوب ہے کیونکہ اکثر اوقات اسی بناؤ سنگھار میں لگے رہنا کم از کم دیندار لوگوں کا شیوہ نہیں ہے، نیز اس میں ممانعت عام ہے جو امت کے ہر فرد کو شامل ہے۔ اس ممانعت میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں، تخصیص کی دلیل معلوم نہیں جبکہ جمہور علمائے کرام اس نہی کو زجرو توبیخ پر محمول کرتے ہیں کہ اس سے مراد اکثر و بیشتر اسی عمل میں مصروف رہنا قابل مذمت ہے نہ کہ اس سے حقیقی حرمت مراد ہے کہ انسان روزانہ کنگھی نہیں کر سکتا۔ بہرحال احادیث کے ظاہر اور صحابیٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ممانعت ہی ثابت ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [سلسلة الأحادیث الصحیحة، حدیث: 501] ➋ غسل خانے میں پیشاب سے متعلق دیکھیے: حدیث 36۔ اگلی حدیث میں جنبی کے غسل سے بچے ہوئے پانی کے استعمال کی رخصت کا اثبات ہوتا ہے، اس لیے اس حدیث میں اس سے ممانعت استحباب پر محمول ہو گی، یعنی اس سے بچنا بہتر ہے، تاہم استعمال کرنا جائز ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 239
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5057
´مونچھ کاٹنے کا بیان۔` حمید بن عبدالرحمٰن حمیری کہتے ہیں کہ میری ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرح چار سال رہا تھا، اس نے کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزانہ کنگھی کرنے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5057]
اردو حاشہ: (1) جس طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یہ تشبیہ مدت میں بھی ہوسکتی ہے کہ وہ بھی چار سال آپ ﷺ کے پاس رہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ 7 ہجری کے آغاز میں حاضر ہوئے اور رسول اللہ ﷺ11 ہجری کے تیسرے مہینے میں اللہ کو پیارے ہوئے۔ یا یہ تشبیہ کیفیت میں بھی ہوسکتی ہے کہ جس طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہر وقت آپ کے ساتھ رہا کرتے تھے، اسی طرح وہ بزرگ بھی تقریباً ہر وقت آ پ کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ (2) ہرروز کنگھی، کیونکہ ہر روز کنگھی کرنا دلیل ہے کہ اس شخص کی زیب وزینت کی طرف ضرورت سے زیادہ توجہ ہے اور یہ وصف عورتوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ شخص یا عورتوں کی طرح بن سنور کر رہتا ہے۔ اس میں وہ مردوں کے لیے فتنہ بنے گا یا عورتوں کو مائل کرنے کی غرض سے ایسے کرتا ہے تو عورتوں کے لیے فتنہ بنے گا۔ مردوں کی توجہ زیب و زینت کی طرف نہیں ہونی چاہیے ورنہ مفاسد پیدا ہوں گے۔ (3) ہر روز کنگھی نہ کرنے کا لازمی نتیجہ ہے کہ بال کٹوا کے رکھے جائیں تاکہ روازانہ کنگھی کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے۔ یہی باب سے مناسبت ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5057