عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ(کفر کے زمانہ میں) کوئی عورت ایسی ہوتی جس کا بچہ نہ جیتا (زندہ نہ رہتا) تو وہ نذر مانتی کہ اگر اس کا بچہ جئیے (زندہ رہے گا) گا تو وہ اس کو یہودی بنائے گی، جب بنی نضیر کو جلا وطن کرنے کا حکم ہوا تو ان میں چند لڑکے انصار کے بھی تھے، انصار نے کہا: ہم اپنے لڑکوں کو نہ چھوڑیں گے تو اللہ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی «لا إكراه في الدين قد تبين الرشد من الغى»(سورۃ البقرہ: ۲۵۶)”دین میں زبردستی نہیں ہدایت گمراہی سے واضح ہو چکی ہے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «مقلات»: اس عورت کو کہتے ہیں جس کا کوئی بچہ نہ جیتا ہو۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2682]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2682
فوائد ومسائل: اسلام قبول کرنے کے سلسلے میں جبر واکراہ کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ جہاد کا حکم اور عمل اشاعت اسلام کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کےلئے ہے نہ کہ لوگوں کو اسلام پر مجبور کرنے کےلئے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2682