واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے سلسلہ میں منادی کرائی، میں اپنے اہل کے پاس گیا اور وہاں سے ہو کر آیا تو صحابہ کرام نکل چکے تھے، تو میں شہر میں پکار لگانے لگا کہ کوئی ایسا ہے جو ایک آدمی کو سوار کر لے، اور جو حصہ مال غنیمت سے ملے اسے لے لے، ایک بوڑھے انصاری بولے: اچھا ہم اس کا حصہ لے لیں گے، اور اس کو اپنے ساتھ بٹھا لیں گے، اور ساتھ کھانا کھلائیں گے، میں نے کہا: ہاں قبول ہے، انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، اللہ کی برکت پر بھروسہ کر کے چلو، میں بہت ہی اچھے ساتھی کے ساتھ نکلا یہاں تک کہ اللہ نے ہمیں غنیمت کا مال دیا، میرے حصہ میں چند تیز رو اونٹنیاں آئیں، میں ان کو ہنکا کر اپنے ساتھی کے پاس لایا، وہ نکلے اور اپنے اونٹ کے پچھلے حصہ (حقیبہ) پر بیٹھے، پھر کہا: ان کی پیٹھ میری طرف کر کے ہانکو، پھر بولے: ان کا منہ میری طرف کر کے ہانکو، اس کے بعد کہا: تیری اونٹنیاں میرے نزدیک عمدہ ہیں، میں نے کہا: یہ تو آپ کا وہی مال ہے جس کی میں نے شرط رکھی تھی، انہوں نے کہا: میرے بھتیجے! تو اپنی اونٹنیاں لے لے، میرا ارادہ تیرا حصہ لینے کا نہ تھا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2676]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11747) (ضعیف)» (اس کے راوی عمرو بن عبد اللہ سے سیبانی لین الحدیث ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن عمرو بن عبد الله الحضرمي وثقه يعقوب الفارسي والعجلي المعتدل وقال ابن حبان ’’متقنًا‘‘ وصححه أبو عوانة والحاكم والذهبي
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2676
فوائد ومسائل: 1۔ اگر کوئی ٖغازی اس طرح کا معاملہ کرے تو جائز ہے۔
2۔ اس میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے اس امتیازی وصف کے ایک نمونے کا ذکر ہے۔ جو ان میں عام تھا۔ وہ یہ کہ وہ دنیوی منفعت کے مقابلے میں اخروی اجر وثواب کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2676