عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کرتے اور رات ہو جاتی تو فرماتے: «يا أرض ربي وربك الله أعوذ بالله من شرك وشر ما فيك وشر ما خلق فيك ومن شر ما يدب عليك وأعوذ بالله من أسد وأسود ومن الحية والعقرب ومن ساكن البلد ومن والد وما ولد»”اے زمین! میرا اور تیرا رب اللہ ہے، میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں تیرے شر سے اور اس چیز کے شر سے جو تجھ میں ہے اور اس چیز کے شر سے جو تجھ میں پیدا کی گئی ہے اور اس چیز کے شر سے جو تجھ پر چلتی ہے اور اللہ کی پناہ چاہتا ہوں شیر اور کالے ناگ سے اور سانپ اور بچھو سے اور زمین پر رہنے والے (انسانوں اور جنوں) کے شر سے اور جننے والے کے شر اور جس چیز کو جسے اس نے جنا ہے اس کے شر سے“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2603]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 6720)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/132، 3/124) (ضعیف)» (اس کے راوی زبیر بن ولید لین الحدیث ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: حسن مشكوة المصابيح (2439) صححه ابن خزيمة (2572 وسنده حسن) الزبير بن الوليد صدوق حسن الحديث وثقه ابن خزيمة والحاكم وغيرھما
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2603
فوائد ومسائل: اس علاقے کے رہنے والوں سے مراد جن ہیں۔ اور کہا جاتا ہے کہ جننے والے سے مراد شیطان اور اس کی اولاد ہے۔ مگر الفاظ اپنے عموم سے ہر جننے والے اورجنے گئے کو شامل ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2603