ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آدمی کسی راستہ پہ جا رہا تھا کہ اسی دوران اسے سخت پیاس لگی، (راستے میں) ایک کنواں ملا اس میں اتر کر اس نے پانی پیا، پھر باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک کتا ہانپ رہا ہے اور پیاس کی شدت سے کیچڑ چاٹ رہا ہے، اس شخص نے دل میں کہا: اس کتے کا پیاس سے وہی حال ہے جو میرا حال تھا، چنانچہ وہ (پھر) کنویں میں اترا اور اپنے موزوں کو پانی سے بھرا، پھر منہ میں دبا کر اوپر چڑھا اور (کنویں سے نکل کر باہر آ کر) کتے کو پلایا تو اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ عمل قبول فرما لیا اور اسے بخش دیا“، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہمارے لیے چوپایوں میں بھی ثواب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر تر کلیجہ والے (جاندار) میں ثواب ہے“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2550]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الوضوء 33 (173)، والمساقاة 9 (2363)، والمظالم 23 (2466)، والأدب 27 (6009)، صحیح مسلم/السلام 41 (2244)، (تحفة الأشراف: 12574)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/صلاة الجماعة 2 (6)، مسند احمد (2/375، 517) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2363) صحيح مسلم (2244)
رجل يمشي بطريق اشتد عليه العطش فوجد بئرا فنزل فيها فشرب ثم خرج فإذا كلب يلهث يأكل الثرى من العطش فقال الرجل لقد بلغ هذا الكلب من العطش مثل الذي كان بلغ بي فنزل البئر فملأ خفه ثم أمسكه بفيه فسقى الكلب فشكر الله له فغفر له
رجل يمشي فاشتد عليه العطش فنزل بئرا فشرب منها ثم خرج فإذا هو بكلب يلهث يأكل الثرى من العطش فقال لقد بلغ هذا مثل الذي بلغ بي فملأ خفه ثم أمسكه بفيه ثم رقي فسقى الكلب فشكر الله له فغفر له لنا في البهائم أجرا قال في كل كبد رطبر أجر
بينا رجل بطريق اشتد عليه العطش فوجد بئرا فنزل فيها فشرب ثم خرج فإذا كلب يلهث يأكل الثرى من العطش فقال الرجل لقد بلغ هذا الكلب من العطش مثل الذي كان بلغ مني فنزل البئر فملأ خفه ماء فسقى الكلب فشكر الله له فغفر له لنا في البهائم لأجرا فقال في كل ذات كبد رطب
رجل يمشي بطريق اشتد عليه العطش فوجد بئرا فنزل فيها فشرب ثم خرج فإذا كلب يلهث يأكل الثرى من العطش فقال الرجل لقد بلغ هذا الكلب من العطش مثل الذي كان بلغ مني فنزل البئر فملأ خفه ماء ثم أمسكه بفيه حتى رقي فسقى الكلب فشكر الله له فغفر له
رجل يمشي بطريق فاشتد عليه العطش فوجد بئرا فنزل فيها فشرب ثم خرج فإذا كلب يلهث يأكل الثرى من العطش فقال الرجل لقد بلغ هذا الكلب من العطش مثل الذي كان بلغني فنزل البئر فملأ خفه فأمسكه بفيه حتى رقي فسقى الكلب فشكر الله له فغفر له
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2550
فوائد ومسائل: 1۔ لوگوں کے لئے سرائوں اور ان کے راستوں میں پانی کا انتظام کرنا بہت بڑی نیکی کا کام ہے۔
2۔ انسان مسلمان ہو یا کافر اس کے ساتھ اور ایسے ہی جاندار مخلوق کے ساتھ احسان کرنا۔ بڑے اجر کی بات ہے۔ البتہ واجب القتل اور موذی جانور اس احسان سے مستثنیٰ ہیں۔ جیسے کہ خنزیر، سانپ، بچھو وغیرہ۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2550
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5859
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آدمی راستے پر چل رہا تھا، اس دوران اسے شدید پیاس لگی، اس نے ایک کنواں پایا تو اس میں اتر کر پانی پی لیا، پھر نکلا تو ایک کتا دیکھا جو ہانپ رہا ہے اور پیاس کی وجہ سے کم دار زمین چاٹ رہا ہے، اس آدمی نے دل میں کہا، اس کتے کو بھی پیاس کی وجہ سے وہی کوفت پہنچی ہے، جو مجھے لاحق ہوئی تھی، سو وہ کنویں میں اترا اور اپنے موزے میں پانی بھرا،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:5859]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر زندہ کے ساتھ ہمدردی اور خیرخواہی کرنا اور اس کی طبعی ضروریات کو پورا کرنا اجروثواب کا باعث ہے۔ بشرطیکہ وہ جانور موذی اور مضرت رساں نہ ہو۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5859
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2363
2363. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایک شخص جارہا تھا، اس کو سخت پیاس لگی تو وہ ایک کنویں میں اترا اور اس سے پانی پیا۔ جب وہ باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک کتا پیاس کی وجہ سے ہانپتے ہوئے گیلی مٹی چاٹ رہا ہے۔ اس شخص نے (دل میں) کہا کہ اسے بھی شدت پیاس سے وہی اذیت ہے جو مجھے تھی۔ اس نے اپنا موزہ پانی سے بھرا اور اسے منہ میں لے کر ا وپر چڑھا اور کتے کو پانی پلایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی قدردانی کرتے ہوئے اس کو معاف کردیا۔“ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے پوچھا: اللہ کے رسول ﷺ! کیا ہمیں چوپایوں کی خدمت کرنے میں بھی اجر ملے گا؟ آپ نے فرمایا: ”ہر وہ جگر جو زندہ ہے اس کی خدمت میں اجر ہے۔“ حماد بن سلمہ اور ربیع بن مسلم نے محمد بن زیاد سے اس حدیث کی متابعت ذکر کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2363]
حدیث حاشیہ: ثابت ہوا کہ کسی بھی جاندار کو پانی پلا کر اس کی پیاس رفع کردینا ایسا عمل ہے کہ جو مغفرت کا سبب بن سکتا ہے۔ جیسا کہ اس شخص نے ایک پیاسے کتے کو پانی پلایا اور اسی عمل کی وجہ سے بخشا گیا۔ مولانا فرماتے ہیں کہ یہ تو بظاہر عام ہے، ہر جانور کو شامل ہے بعض نے کہا مراد اس سے حلال چوپائے جانو رہیں۔ اور کتے اور سور وغیرہ میں ثواب نہیں کیوں کہ ان کے مار ڈالنے کا حکم ہے میں (مولانا وحید الزماں) کہتا ہوں حدیث کو مطلق رکھنا بہتر ہے۔ کتے اور سور کو بھی یہ کیا ضروری ہے کہ پیاسا رکھ کر مارا جائے۔ پہلے اس کو پانی پلا دیں اور پھر مار ڈالیں۔ ابوعبدالملک نے کہا یہ حدیث بنی اسرائیل کے لوگوں سے متعلق ہے۔ ان کو کتوں کے مارنے کا حکم نہ تھا۔ (وحیدی) حدیث میں لفظ في کل کبد رطبة عام ہے جس میں ہر جاندار داخل ہے اس لحاظ سے مولانا وحید الزماں ؒ کی تشریح خوب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2363
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2466
2466. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایسا ہوا کہ ایک شخص راستے میں جا رہاتھا کہ اسے سخت پیاس لگی۔ اس نے ایک کنواں دیکھا تو اس میں اتر پڑا اور اپنی پیاس بجھائی۔ باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک کتا ہانپ رہا ہے اور پیاس کی شدت سے مٹی چاٹ رہا ہے۔ اس شخص نے خیال کیا کہ اسے بھی اسی طرح پیاس لگی ہے جیسے مجھے لگی تھی، چنانچہ وہ کنویں میں اترااور اپنا موزہ پانی سے بھرا، پھر وہ کتے کو پلادیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا عمل قبول کیا اور اسے بخش دیا۔ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! کیا جانوروں کی خدمت میں بھی ہمارے لیے اجرہے؟“ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہر زندہ جگر کی خدمت میں اجرو ثواب ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2466]
حدیث حاشیہ: مجتہد مطلق حضرت امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ مسئلہ نکالا کہ راستے میں کنواں کھود سکتے ہیں۔ تاکہ آنے جانے والے اس میں سے پانی پئیں اور آرام اٹھائیں بشرطیکہ ضرر کا خوف نہ ہو، ورنہ کھودنے والا ضامن ہوگا اور یہ بھی ظاہر ہوا کہ ہر جاندار کو خواہ وہ انسان ہو یا حیوان، کافر ہو یا مسلمان سب کو پانی پلانا بہت بڑا کار ثواب ہے۔ حتی کہ کتا بھی حق رکھتا ہے کہ وہ پیاسا ہو تو اسے بھی پانی پلایا جائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2466
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6009
6009. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک آدمی راستے میں چل رہا تھا اس دوران میں اسے شدت کی پیاس لگی اس نے ایک کنواں پایا اس میں اتر کر اس نے پانی پیا۔ جب باہر نکلا تو اس نے وہاں کتا دیکھا جو ہانپ رہاتھا اور پیاس کی وجہ سے تری چاٹ رہا تھا اس شخص نے خیال کیا کہ اس کتے کو پیاس سے وہی تکلیف پہنچی ہوگی جو مجھے پہنچی تھی چنانچہ وہ پھر کنویں میں اترا اپنے جوتے میں پانی بھرا اور منہ سے پکڑ کر اسے باہر لایا پھر کتے کو پلایا۔ اللہ تعالٰی نے اس کے عمل کی قدر کرتے ہوئے اسے بخش دیا۔ صحابہ کرام نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا ہمیں جانوروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا بھی اجر ملے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمہیں ہر تر جگر والے سے اچھا برتاؤ کرنے میں اجر ملے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6009]
حدیث حاشیہ: رحمت خدا وندی کا کرشمہ ہے کہ صرف کتے کو پانی پلانے سے وہ شخص مغفرت کا حق دار ہو گیا اسی لیے کہا گیا ہے کہ حقیر سی نیکی کو بھی چھوٹا نہ جاننا چاہیئے نہ معلوم اللہ پاک کس نیکی سے خوش ہو جائے اور وہ سب گناہ معاف فرما دے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6009
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2363
2363. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایک شخص جارہا تھا، اس کو سخت پیاس لگی تو وہ ایک کنویں میں اترا اور اس سے پانی پیا۔ جب وہ باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک کتا پیاس کی وجہ سے ہانپتے ہوئے گیلی مٹی چاٹ رہا ہے۔ اس شخص نے (دل میں) کہا کہ اسے بھی شدت پیاس سے وہی اذیت ہے جو مجھے تھی۔ اس نے اپنا موزہ پانی سے بھرا اور اسے منہ میں لے کر ا وپر چڑھا اور کتے کو پانی پلایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی قدردانی کرتے ہوئے اس کو معاف کردیا۔“ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے پوچھا: اللہ کے رسول ﷺ! کیا ہمیں چوپایوں کی خدمت کرنے میں بھی اجر ملے گا؟ آپ نے فرمایا: ”ہر وہ جگر جو زندہ ہے اس کی خدمت میں اجر ہے۔“ حماد بن سلمہ اور ربیع بن مسلم نے محمد بن زیاد سے اس حدیث کی متابعت ذکر کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2363]
حدیث حاشیہ: (1) صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے: ”اللہ تعالیٰ نے اس کی نیکی قبول کرتے ہوئے اسے جنت میں داخل فرما دیا۔ “(صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 173)(2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جاندار مخلوق پر شفقت و مہربانی کرنی چاہیے، خاص طور پر لوگوں سے بھلائی کرنے میں بہت فضیلت ہے کیونکہ جب پیاسے کتے کو پانی پلانا باعث مغفرت ہے تو انسانوں کی خدمت کرنے میں عظیم اجروثواب کی امید رکھنی چاہیے۔ اس سے پانی پلانے کی فضیلت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ عمل اللہ کے ہاں کس قدر قدرومنزلت کا باعث ہے۔ (فتح الباري: 53/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2363
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2466
2466. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایسا ہوا کہ ایک شخص راستے میں جا رہاتھا کہ اسے سخت پیاس لگی۔ اس نے ایک کنواں دیکھا تو اس میں اتر پڑا اور اپنی پیاس بجھائی۔ باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک کتا ہانپ رہا ہے اور پیاس کی شدت سے مٹی چاٹ رہا ہے۔ اس شخص نے خیال کیا کہ اسے بھی اسی طرح پیاس لگی ہے جیسے مجھے لگی تھی، چنانچہ وہ کنویں میں اترااور اپنا موزہ پانی سے بھرا، پھر وہ کتے کو پلادیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا عمل قبول کیا اور اسے بخش دیا۔ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! کیا جانوروں کی خدمت میں بھی ہمارے لیے اجرہے؟“ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہر زندہ جگر کی خدمت میں اجرو ثواب ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2466]
حدیث حاشیہ: (1) اس عنوان کا مقصد یہ نہیں کہ عین راستے کے درمیان میں کنواں کھود دیں بلکہ راستے میں اس کے دائیں بائیں ہو۔ اس وقت خدمتِ خلق کے لیے کچے کنویں راستوں کے کناروں پر بنائے جاتے تھے۔ ان میں اترنے کے لیے سیڑھیاں بھی ہوتی تھیں۔ (2) اس سے معلوم ہوا کہ راستے میں کنواں بنایا جا سکتا ہے تاکہ آنے جانے والے مسافر اس سے پانی پئیں اور اپنی پیاس بجھائیں بشرطیکہ کسی کے لیے نقصان یا تکلیف کا باعث نہ ہو۔ (3) اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ ہر جاندار کو، خواہ وہ انسان ہو یا حیوان، مسلمان ہو یا کافر پانی پلانے کا اہتمام کرنا بہت ثواب کا کام ہے حتیٰ کہ کتا بھی حق رکھتا ہے کہ اگر وہ پیاسا ہو تو اسے بھی پانی پلایا جائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2466
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6009
6009. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک آدمی راستے میں چل رہا تھا اس دوران میں اسے شدت کی پیاس لگی اس نے ایک کنواں پایا اس میں اتر کر اس نے پانی پیا۔ جب باہر نکلا تو اس نے وہاں کتا دیکھا جو ہانپ رہاتھا اور پیاس کی وجہ سے تری چاٹ رہا تھا اس شخص نے خیال کیا کہ اس کتے کو پیاس سے وہی تکلیف پہنچی ہوگی جو مجھے پہنچی تھی چنانچہ وہ پھر کنویں میں اترا اپنے جوتے میں پانی بھرا اور منہ سے پکڑ کر اسے باہر لایا پھر کتے کو پلایا۔ اللہ تعالٰی نے اس کے عمل کی قدر کرتے ہوئے اسے بخش دیا۔ صحابہ کرام نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا ہمیں جانوروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا بھی اجر ملے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمہیں ہر تر جگر والے سے اچھا برتاؤ کرنے میں اجر ملے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6009]
حدیث حاشیہ: (1) صحیح بخاری میں اس طرح کا ایک واقعہ بنی اسرائیل کی ایک فاحشہ عورت کے متعلق بھی مروی ہے، اسے بھی اللہ تعالیٰ نے اس خدمت کی وجہ سے معاف کردیا۔ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3467) ممکن ہے کہ متعدد واقعات ہوں۔ (2) یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا کرشمہ ہے کہ صرف پیاسے کتے کو پانی پلانے سے انسان مغفرت کا حق دار بن گیا، لہٰذا انسان کو چاہیے کہ وہ اچھے کام کو حقیر اور معمولی نہ خیال کرے۔ کیا معلوم کہ اللہ تعالیٰ کو وہ پسند آ جائے کہ اس کے بدلے مغفرت کا پروانہ مل جائے۔ بہرحال ہمیں حیوانات کے متعلق نرم گوشہ رکھنا چاہیے۔ ان پر رحم اور نرمی کرتے ہوئے ان سے کام لیا جائے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6009