عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تمہارے بھائی احد کے دن شہید کئے گئے تو اللہ نے ان کی روحوں کو سبز چڑیوں کے پیٹ میں رکھ دیا، جو جنت کی نہروں پر پھرتی ہیں، اس کے میوے کھاتی ہیں اور عرش کے سایہ میں معلق سونے کی قندیلوں میں بسیرا کرتی ہیں، جب ان روحوں نے اپنے کھانے، پینے اور سونے کی خوشی حاصل کر لی، تو وہ کہنے لگیں: کون ہے جو ہمارے بھائیوں کو ہمارے بارے میں یہ خبر پہنچا دے کہ ہم جنت میں زندہ ہیں اور روزی دیئے جاتے ہیں تاکہ وہ جہاد سے بے رغبتی نہ کریں اور لڑائی کے وقت سستی نہ کریں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”میں تمہاری جانب سے انہیں یہ خبر پہنچائوں گا“، راوی کہتے ہیں: تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ «ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا»”جو اللہ کے راستے میں شہید کر دئیے گئے انہیں مردہ نہ سمجھو“(سورۃ آل عمران: ۱۶۹) اخیر آیت تک نازل فرمائی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2520]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 5610)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/266) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: حسن مشكوة المصابيح (3853) ابن إسحاق صرح بالسماع وللحديث شواھد عند البيھقي في أثبات عذاب القبر (212 وسنده حسن)
لما أصيب إخوانكم بأحد جعل الله أرواحهم في جوف طير خضر ترد أنهار الجنة تأكل من ثمارها وتأوي إلى قناديل من ذهب معلقة في ظل العرش فلما وجدوا طيب مأكلهم ومشربهم ومقيلهم قالوا من يبلغ إخواننا عنا أنا أحياء في الجنة نرزق لئلا يزهدوا في الجهاد
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2520
فوائد ومسائل: 1۔ شہدا کے اس اعزازواکرام میں مسلمانوں کو ترغیب وتشویق ہے کہ اللہ کا کلمہ بلند کرنے میں جان کی بازی لگانے سے دریغ نہ کریں۔
2۔ شہداء کی زندگی کو دنیا کی اس زندگی پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ سورہ بقرہ میں صراحت ہے۔ کہ ان کی زندگی کو تم لوگ نہیں سمجھ سکتے۔ اور بعد از محشر انھیں نہایت اعزازو اکرام سے جنت میں داخل کیا جائے گا۔
3۔ محمد رسول اللہ ﷺ ان شہداء سے مراتب میں افضل واعلیٰ ہیں۔ لہذا آپ کی برزخی زندگی کو بدرجہ اولیٰ نہیں سمجھا جا سکتا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2520