ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا: مجھ پر ماہ رمضان کی قضاء ہوتی تھی اور میں انہیں رکھ نہیں پاتی تھی یہاں تک کہ شعبان آ جاتا۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2399]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الصوم 40 (1950)، صحیح مسلم/الصیام 26 (1146)، ن الصیام 36 (2321)، سنن ابن ماجہ/الصیام 13 (1669)، (تحفة الأشراف: 17777)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصیام 66 (783)، موطا امام مالک/الصیام 20 (54)، مسند احمد (6/124، 179) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1950) صحيح مسلم (1146)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2399
فوائد ومسائل: (1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مشغولیت کے باعث انہیں موقع نہیں ملتا تھا کہ روزے رکھ سکیں حتی کہ شعبان آ جاتا اور اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے روزے رکھتے تھے تو انہیں بھی قضا کرنے کا موقع مل جاتا تھا۔
(2) اس یقین پر کہ روزے کی قضا کرنے کا موقع مل جائے گا، تاخیر کرنا مباح ہے۔
(3) شوہر کی خدمت کا اہتمام کرنا بیوی کے فرائض میں شامل ہے۔
(4) اگر رمضان آ جائے اور قضا نہ کر سکے تو رمضان کے بعد قضا کرے۔ اس صورت میں کچھ صحابہ و تابعین وغیرہم کا قول ہے کہ قضا کرنے کے ساتھ ساتھ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا بھی کھلائے اور کچھ کہتے ہیں کہ سوائے قضا کرنے کے اور کچھ لازم نہیں ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2399