عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جو بھی چاہے مجھ سے اس بات پر لعان ۱؎ کر لے کہ چھوٹی سورۃ نساء (سورۃ الطلاق) چار مہینے دس دن والے حکم کے بعد نازل ہوئی ۲؎۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2307]
وضاحت: ۱؎: اس سے مراد مباہلہ ہے۔ ۲؎: جو کہ سورہ البقرہ میں ہے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ کہ ” عام متوفی عنہا زوجہا کے چار ماہ دس دن عدت گزارنے کا حکم سورہ بقرہ میں ہے “، اور ”حاملہ متوفی عنہا زوجہا کی عدت صرف وضع حمل تک ہے “ کا تذکرہ سورہ طلاق کے اندر ہے جو کہ سورہ بقرہ کے بعد اتری ہے اس لئے یہ حکم خاص اس حکم عام کو خاص کرنے والا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن ماجه (2030) الأعمش مدلس وعنعن وللحديث شواھد ضعيفة (انظر ضعيف سنن النسائي : 3552) وحديث البخاري (4532) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 86
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2307
فوائد ومسائل: 1: سورۃ الطلاق میں ہے کہ (وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ)(الطلاق:4) اور حاملہ عورتوں کی عدت یہ ہے کہ وضع حمل ہو جائے اور اس سورت کو سورۃالنساء القصر۔ (چھوٹی سورۃ النسا) اس لیے کہا کہ جہاں معروف بڑی سورۃنساء میں عورتوں کے احکام ومسائل بیان ہوئے ہیں، وہاں اس سورت میں بھی انہی مسائل ذکر کیے گئے ہیں۔
2: حضرت عبداللہ رضی اللہ کا یہ قول معروف فقہی اصول کی اساس ہے کہ کسی مسئلے میں جہاں کہیں دو ہدایات وارد ہوں ان میں سے قابل عمل وہی ہوتی ہے جو بعد میں نازل ہوئی ہو۔
3: سورۃ البقرہ کی آیت کریمہ (والذینَ یُتوفونَ منکم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ أشھُرٍ و عَشرًا)(البقرة: 234) اور سورۃ الطلاق کی آیت میں تعارض نہیں ہے، بلکہ چار ماہ دس دن کی عدت ایسی عورتوں کے لئے جو حمل سے نہ ہوں اوراگر حمل ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2307