سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ بصرہ بن اکثم نامی ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا پھر راوی نے اسی مفہوم کی روایت نقل کی لیکن اس میں اتنا زیادہ ہے کہ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان جدائی کرا دی“ اور ابن جریج والی روایت زیادہ کامل ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب النِّكَاحِ/حدیث: 2132]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 2124، 18756) (ضعیف)» (اس کے راوی یزید بن نعیم لین الحدیث ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف وحديث ابن جريج أتم
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف السند مرسل،سعيد بن المسيب رحمه اللّٰه من كبار التابعين (انظر التقريب : 2396) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 81
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2132
فوائد ومسائل: یہ دونوں روایات مرسل ہیں، مرفوعا صحیح نہیں ہیں تاہم مسائل کا حل تقریبا یہی ہے۔ (الف) اس قسم کی صورت حال میں کہ انسان اپنی منکوحہ کو حاملہ پائے تو ان میں تفریق کرادی جائے گی اور شوہر نے اگراس سے مباشرت کر لی تو اس کی وجہ سے اسے حق مہر (یا مثل) دینا پڑے گا۔ (ب) اس عورت پر حد لازم آئے گی۔ (ج) ولد الزنا کو معروف معنی میں غلام (عبد) ہونے کا کسی فقیہ نے نہیں کہا۔ الا یہ اسےاس دور کی بات تسلیم کی جائے جبکہ غلامی کا دور باقی تھا، ہاں اس کے بچے کی حسن تعلیم وتربیت کی تاکید ہے اور وہ اپنے مربی کا احسان مند اور خد متگار ہو گا۔ (واللہ اعلم)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2132