ابراہیم بن میسرہ کی روایت ہے کہ ایک عورت جو نہایت سچی تھی، کہتی ہے: میرے والد زمانہ جاہلیت میں ایک غزوہ میں تھے کہ (تپتی زمین سے) لوگوں کے پیر جلنے لگے، ایک شخص بولا: کوئی ہے جو مجھے اپنی جوتیاں دیدے؟ اس کے عوض میں پہلی لڑکی جو میرے یہاں ہو گی اس سے اس کا نکاح کر دوں گا، میرے والد نے جوتیاں نکالیں اور اس کے سامنے ڈال دیں، اس کے یہاں ایک لڑکی پیدا ہوئی اور پھر وہ بالغ ہو گئی، پھر اسی جیسا قصہ بیان کیا لیکن اس میں «قتیر» کا واقعہ مذکور نہیں ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب النِّكَاحِ/حدیث: 2104]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 18091) (ضعیف)» (اس کی سند میں ایک مجہول راویہ ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف خالة إبراهيم بن ميسرة،لم أقف علي من وثقھا :’’ وھي مجهولة ‘‘ كما في التقريب (8787) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 79