الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كِتَاب الْمَنَاسِكِ
کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
78. باب فِي رَمْىِ الْجِمَارِ
78. باب: رمی جمرات کا بیان۔
حدیث نمبر: 1967
حَدَّثَنَا أَبُو ثَوْرٍ إِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ، وَوَهْبُ بْنُ بَيَانٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عُبَيْدَةُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ، عَنْ أُمِّهِ، قَالَتْ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ جَمْرَةِ الْعَقَبَةِ رَاكِبًا، وَرَأَيْتُ بَيْنَ أَصَابِعِهِ حَجَرًا فَرَمَى وَرَمَى النَّاسُ".
والدہ سلیمان بن عمرو بن احوص رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جمرہ عقبہ کے پاس سوار دیکھا اور میں نے دیکھا کہ آپ کی انگلیوں میں کنکریاں تھیں، تو آپ نے بھی رمی کی اور لوگوں نے بھی رمی کی ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1967]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 18306) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جمرات کی رمی سواری پر درست ہے، لیکن موجودہ حالات میں منتظمین حج کے احکام کی روشنی میں مناسک حج، قربانی، اور رمی جمرات وغیرہ کے کام انجام دینا چاہئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
انظر الحديث السابق (1966)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 76

   سنن أبي داودعند جمرة العقبة راكبا ورأيت بين أصابعه حجرا فرمى ورمى الناس

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1967 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1967  
1967. اردو حاشیہ: لفظ حجرکا ترجمہ کنکریاں دوسری روایات کی بنا پر صحیح ہے نیز اسی روایات میں «بين اصابعه» ‏‏‏‏ یعنی انگلیوں کے بیچ میں کا لفظ بھی موجود ہے۔ ورنہ معروف معنوں میں پتھر مارنا تو جائز نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1967