ابواسحاق کہتے ہیں کہ مجھ سے حارثہ بن وہب خزاعی نے بیان کیا اور ان کی والدہ عمر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں تو ان سے عبیداللہ بن عمر کی ولادت ہوئی، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے منیٰ میں نماز پڑھی، اور لوگ بڑی تعداد میں تھے، تو آپ نے ہمیں حجۃ الوداع میں دو رکعتیں پڑھائیں ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حارثہ کا تعلق خزاعہ سے ہے اور ان کا گھر مکہ میں ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1965]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/تقصیر الصلاة 2 (1083)، والحج 84 (1656)، صحیح مسلم/المسافرین 2 (696)، سنن الترمذی/الحج 52 (882)، سنن النسائی/تقصیر الصلاة 2 (1446)، (تحفة الأشراف: 3284)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/306) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: محقق علماء کا قول یہ ہے کہ اہل مکہ بھی منیٰ اور عرفات میں قصر کریں گے، یہ حج کے مسائل میں سے ہے، یہاں مسافر اور مقیم کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1083) صحيح مسلم (696)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1965
1965. اردو حاشیہ: اس سےمعلوم ہوا کہ منی ٰ میں قصر کرنامناسک حج کا حصہ ہے اس لیے دیگر مسافرین کی طرح اہل مکہ بھی منیٰ میں نماز قصر کر کے ہی پڑھیں گے۔ البتہ فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد اہل مکہ کامنی ٰ میں قصر کرنا جائز نہ ہوگا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1965
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1446
´منیٰ میں نماز قصر کرنے کا بیان۔` حارثہ بن وہب خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ میں دو ہی رکعت پڑھی، ایک ایسے وقت میں جس میں کہ لوگ سب سے زیادہ مامون و بےخوف تھے، اور تعداد میں زیادہ تھے۔ [سنن نسائي/كتاب تقصير الصلاة فى السفر/حدیث: 1446]
1446۔ اردو حاشیہ: منیٰ می چونکہ سب حاجی مسافر ہی ہوتے ہیں، لہٰذا منیٰ میں سب حاجی قصر کریں گے۔ امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک یہ قصر حج کی بنا پر ہے سفر کی بنا پر نہیں۔ احناف کے نزدیک جو لوگ منیٰ سے مسافت قصر کے اندر اندر رہتے ہیں، وہ پوری نماز پڑھیں گے، مگر یہ کسی حدیث سے ثابت نہیں اور نہ کسی حدیث میں یہ ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کرنے والوں میں کوئی ایسی تفریق کی گئی ہو، مثلاً: یہ نہیں کہا گیا کہ مکہ والے قصر نہ کریں وغیرہ۔ صحیح بات یہی ہے کہ سب حاجی منیٰ میں قصر کریں گے۔ (قصر کے لیے خوف کی بحث پیچھے گزر چکی ہے۔)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1446
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 882
´منیٰ میں نماز قصر پڑھنے کا بیان۔` حارثہ بن وہب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ میں دو رکعت نماز پڑھی جب کہ لوگ ہمیشہ سے زیادہ مامون اور بےخوف تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 882]
اردو حاشہ: 1؎: ان لوگوں کے نزدیک منیٰ میں قصر کی وجہ منسک حج نہیں سفر ہے، مکہ اور منیٰ کے درمیان اتنی دوری نہیں کہ آدمی اس میں نماز قصر کرے، اور جو لوگ مکہ والوں کے لیے منیٰ میں قصر کو جائز کہتے ہیں ان کے نزدیک قصر کی وجہ سفر نہیں بلکہ اس کے حج کا نسک ہوتا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 882
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1083
1083. حضرت حارثہ بن وہب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے بحالت امن منیٰ میں ہمیں دو رکعتیں پڑھائی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1083]
حدیث حاشیہ: (1) بعض حضرات کا موقف ہے کہ نماز قصر جنگی حالات کے ساتھ خاص ہے۔ وہ دلیل کے طور پر قرآن کریم کی وہ آیت پیش کرتے ہیں جس میں بحالت سفر نماز قصر کو ہنگامی حالات کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔ امام بخاری ؒ نے وضاحت فرمائی ہے کہ دوران سفر میں بحالت امن بھی قصر کی جا سکتی ہے۔ آیت کریمہ میں اندیشۂ دشمن کا ذکر غالب احوال کی بنا پر کیا گیا ہے کیونکہ مسلمانوں کے لیے اس وقت پورا عرب دار الحرب کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ (2) امام ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ قصر کی دو اقسام ہیں: ٭ قصر ارکان، یعنی نماز کی ہئیت اور ارکان میں تخفیف کر دی جائے۔ ٭ قصر عدد، یعنی رکعات نماز میں تخفیف کر دی جائے، چار کے بجائے دو۔ جب خوف اور سفر دونوں ہوں تو مطلق قصر، یعنی قصر ارکان اور قصر عدد کیا جائے گا۔ جب خوف اور سفر نہ ہو تو نماز کو پورا ادا کرنا ہو گا۔ جب خوف ہو لیکن سفر نہ ہو تو قصر ارکان سے نماز پوری ادا کی جائے گی، یعنی رکعات کی تعداد میں کمی نہیں ہو گی جیسا کہ غزوۂ خندق کے موقع پر تھا۔ جب خوف نہیں صرف سفر ہے تو مقدار میں کمی ہو سکتی ہے، ارکان کی کمی جائز نہیں، اسے صلاۃ امن کہا جاتا ہے، البتہ رکعات میں کمی کے اعتبار سے اسے نماز قصر کہا جاتا ہے۔ تمام ارکان کے لحاظ سے یہ نماز پوری ہے جیسا کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا تھا: سفر کی نماز دو رکعت، جمعہ بھی دو رکعت، اسی طرح نماز عید بھی دو رکعت، یہ صلاۃ تمام ہے قصر نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی زبان سے ایسا ہی ثابت ہے اور افترا پردازی کرنے والا نقصان میں رہے گا۔ (مسند أحمد: 1/37) اس بحث کو امام ابن قیم ؒ نے بڑے اچھے انداز میں پیش کیا ہے۔ (زادالمعاد: 1/466)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1083
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1656
1656. حضرت حارثہ بن وہب خزاعی ؓ سے روایت ہےانھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں منیٰ میں دو رکعتیں پڑھائیں، حالانکہ ہم کسی وقت بھی اس سے زیادہ کثیر تعداد میں نہ تھے اور نہ اس سے زیادہ امن والے ہی تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1656]
حدیث حاشیہ: (1) قرآن کریم میں نماز قصر کو حالت خوف کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔ حضرت حارثہ بن وہب ؓ نے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ قرآن کریم کی مذکورہ شرط اتفاقی ہے احترازی نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں منیٰ میں نماز قصر پڑھائی، حالانکہ ہمیں وہاں کسی کا خوف یا دشمن سے خطرہ نہیں تھا بلکہ تعداد کے اعتبار سے ہم کبھی اس سے زیادہ نہ تھے اور وہاں ہمیں کسی قسم کا خوف یا خطرہ بھی نہ تھا، اس کے باوجود رسول الله ﷺ نے ہمیں منیٰ میں قیام کے دوران دو، دو رکعتیں پڑھائی ہیں۔ بہرحال حجاج کرام کو منیٰ میں قیام کے دوران نماز قصر کا اہتمام کرنا چاہیے، خواہ وہ مسجد خیف میں باجماعت پڑھیں یا اپنے اپنے خیموں میں ادا کریں۔ (2) امام ابوداود ؒ نے اس حدیث سے اہل مکہ کے لیے ایام حج میں نماز قصر ثابت کی ہے کیونکہ حضرت حارثہ ؓ مکہ کے رہائشی تھے۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1965)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1656