علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر (ارکان عرفات سے فراغت کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ رضی اللہ عنہ کو پیچھے سوار کر لیا اور درمیانی چال سے اونٹ ہانکنے لگے، لوگ دائیں اور بائیں اپنے اونٹوں کو مار رہے تھے آپ ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے اور فرماتے تھے: ”لوگو! اطمینان سے چلو“، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے اس وقت لوٹے جب سورج ڈوب گیا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1922]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الحج 554 (885)، (تحفة الأشراف: 10229)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/72، 75، 76، 81) (حسن)» (مگر «لا یلتفت» کا لفظ صحیح نہیں ہے، صحیح لفظ «یلتفت» ہے جیسا کہ ترمذی میں ہے)
قال الشيخ الألباني: حسن دون قوله لا يلتفت والمحفوظ يلتفت وصححه الترمذي
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (885) وانظر الحديث الآتي (1935) سفيان الثوري مدلس وعنعن وحديث أحمد (1/ 76) سنده حسن وھو يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 74
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1922
1922. اردو حاشیہ: سنن ابی دائود کے اکثر نسخوں میں (لايلتفت اليهم)کالفظ آیا ہے۔مگر بذل المجہود میں مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری نے لکھا ہے۔کہ جامع ترمذی مسند احمد اور سنن بہیقی کی بعض اسانید میں لفظ لا موجود نہیں ہے اس طرح کوئی اشکال نہیں رہتا۔مگر مسند احمد کی سند میں (لايلتفت) ہی آیا ہے۔جبکہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح سنن ابی دائود میں اس کو غیر محفوظ لکھا ہے۔(لايلتفت) کالفظ ہی صحیح ہے۔یعنی آپ لوگوں کی طرف ملتفت ہو رہے تھے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1922