ابوطفیل کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: آپ کی قوم سمجھتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کے طواف میں رمل کیا اور یہ سنت ہے، انہوں نے کہا: لوگوں نے سچ کہا اور جھوٹ اور غلط بھی، میں نے دریافت کیا: لوگوں نے کیا سچ کہا اور کیا جھوٹ اور غلط؟ فرمایا: انہوں نے یہ سچ کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمل کیا لیکن یہ جھوٹ اور غلط کہا کہ رمل سنت ہے (واقعہ یہ ہے) کہ قریش نے حدیبیہ کے موقع پر کہا کہ محمد اور اس کے ساتھیوں کو چھوڑ دو وہ اونٹ کی موت خود ہی مر جائیں گے، پھر جب ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شرط پر مصالحت کر لی کہ آپ آئندہ سال آ کر حج کریں اور مکہ میں تین دن قیام کریں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور مشرکین بھی قعیقعان کی طرف سے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا: ”تین پھیروں میں رمل کرو“، اور یہ سنت نہیں ہے ۱؎، میں نے کہا: آپ کی قوم سمجھتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا و مروہ کے درمیان اونٹ پر سوار ہو کر سعی کی اور یہ سنت ہے، وہ بولے: انہوں نے سچ کہا اور جھوٹ اور غلط بھی، میں نے دریافت کیا: کیا سچ کہا اور کیا جھوٹ؟ وہ بولے: یہ سچ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا و مروہ کے درمیان اپنے اونٹ پر سوار ہو کر سعی کی لیکن یہ جھوٹ اور غلط ہے کہ یہ سنت ہے، دراصل لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نہ جا رہے تھے اور نہ سرک رہے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ پر سوار ہو کر سعی کی تاکہ لوگ آپ کی بات سنیں اور لوگ آپ کو دیکھیں اور ان کے ہاتھ آپ تک نہ پہنچ سکیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1885]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الحج 39 (1264)، (تحفة الأشراف: 5776)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/المناسک 29 (2953)، مسند احمد (1/ 229، 233، 297، 298، 369، 372، 373) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مراد ایسی سنت نہیں ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقرب کے لئے بطور عبادت کی ہو، بلکہ مسلمانوں کو یہ حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے دیا تھا تاکہ وہ کافروں کے سامنے اپنے طاقتور اور توانا ہونے کا مظاہرہ کر سکیں، کیونکہ وہ اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ مدینہ کے بخار نے انہیں کمزور کر رکھا ہے، لیکن بہرحال اب یہ طواف کی سنتوں میں سے ہے جس کے ترک پر دم نہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح رواه مسلم (1264) بسند آخر عن أبي الطفيل به
استلموا الركن ورملوا والنبي معهم حتى إذا بلغوا الركن اليماني مشوا إلى الركن الأسود ثم رملوا حتى بلغوا الركن اليماني ثم مشوا إلى الركن الأسود ففعل ذلك ثلاث مرات ثم مشى الأربع
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1885
1885. اردو حاشیہ: -1طواف قدوم میں پہلے تین چکروں میں کندھے ہلا ہلاکر آہستہ آہستہ دوڑنارمل کہلاتا ہے۔اور یہ ثابت شدہ سنت ہے۔طواف قدوم کے بعد کسی اور طواف میں یہ عمل ثابت نہیں۔ نیز عورتوں کےلئے رمل نہیں ہے۔ ➋ رمل مشروع ہونے کی اصل بنا یہی ہے۔ جو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایات میں بیان ہوئی ہے۔ مگر یہ کہنا کہ یہ سنت نہیں ہے۔محل نظر ہے یہ ان کا اپنا خیال ہے۔ اورشاید اس سے ان کی مُراد سنت واجبہ کی نفی ہے۔اورحقیقت بھی یہی ہے کہ یہ عمل مسنون ومستحب ہے۔ اگر کسی سے یہ رہ جائے تو آخر کے چار چکروں میں اس کا تدارک کرناجائز نہیں ہے۔(نیل الاوطار)اگر یہ عمل وقتی ہوتا تو بعد کے عمروں اور حجۃ الوداع میں اس پر عمل نہ کیاجاتا۔عمرہ قضا سن 7 ہجری میں ہوا ہے۔جس میں رمل کی ابتداء ہوئی تھی۔ پھر سن آٹھ ہجری میں عمرہ جعرانہ میں بھی صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین نے رمل کیا۔اور یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کی روایت ہے۔جواوپر گزری ہے۔(حدیث 1884) بعد ازاں دس ہجری میں حجۃ الوداع میں بھی یہ عمل ثابت ہے۔اور سواری پر سوار ہوکرطواف وسعی بلاشبہ عذر پر ہی مبنی ہے۔ کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے۔دور نہ ہوتے تھے اور ان کو زور سے دور کرنا اور ہٹانا نبی کریم ﷺ کو پسند نہ تھا تو آپ سوار ہوگئے تاکہ آپ انہیں مناسک حج کی تعلیم دے سکیں۔ مسائل سمجھا سکیں اور لوگ بھی آپ کے عمل کامشاہدہ کرسکیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1885
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2953
´بیت اللہ کے طواف میں رمل کرنے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صلح حدیبیہ کے بعد دوسرے سال عمرہ کی غرض سے مکہ میں داخل ہونا چاہا، تو اپنے صحابہ سے فرمایا: ”کل تم کو تمہاری قوم کے لوگ دیکھیں گے لہٰذا چاہیئے کہ وہ تمہیں توانا اور مضبوط دیکھیں، چنانچہ جب یہ لوگ مسجد میں داخل ہوئے تو حجر اسود کا استلام کیا، اور رمل کیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ تھے یہاں تک کہ وہ رکن یمانی کے پاس پہنچے، تو وہاں سے حجر اسود تک عام چال چلے، وہاں سے رکن یمانی تک پھر رمل کیا، اور پھر وہاں سے حجر اسود تک عام چال چلے، اس طرح آپ صلی اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2953]
اردو حاشہ: فوائدومسائل:
(1) صلح حدیبیہ ذوالقعدہ 6ھ میں ہوئی۔ اس میں شرط یہ تھی کہ مسلمان اس سال مکہ میں داخل نہ ہوں بلکہ واپس چلے جائیں۔ اگلے سال مسلمان عمرہ کرنے کے لیے آئیں اور تین دن سے زیادہ مکے میں نہ ٹھریں۔
(2) اس شرط کے مطابق دو ہزار مرد اور ان کے علاوہ کچھ عورتیں اور بچے بھی ذوالقعدہ 7ھ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ عمرے کے لیے مکہ پہنچے۔ (فتح الباري: 627/7)
(3) صحابہ کرام ؓنے طواف کے دوران میں بیت اللہ کے تین طرف رمل کیا اور چوتھی طرف عام رفتار سے چلے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مشرکین مکہ گھروں سے نکل کر کعبہ کے شمال میں جبل قعیقعان پر جا بیٹھے تھے۔ مسلمان کعبہ کے تین اطراف انھیں پھرتی سے دوڑتے بھاگتے نظر آتے تھے۔ چوتھی طرف مسلمان کعبہ شریف کی اوٹ میں ہوجانے کی وجہ سے نظر نہیں آتے تھے۔
(4) مسلمانوں کو چاہیے کہ کافروں پر ہر لحاظ سے اپنا رعب قائم رکھیں تاکہ کافر ان پر ظلم کرنے کے بارے میں سوچ نہ سکیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2953
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:505
505- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ اور صفا اور مروہ کی سعی کی تھی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کے سامنے اپنی قوت کا مظاہر کرسکیں۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:505]
فائدہ: اس حدیث میں بیت اللہ کے طواف میں رمل کا ذکر ہے، یہ پہلے تین چکروں میں ہوتا ہے۔ [صـحـيـح البـخـاري: 1508]، رمل سے مراد ”کندھے ہلاتے ہوئے تیز چلنا“ ہے، شروع میں اس کا مقصود مشرکین کو قوت دکھانا ہی تھا لیکن بعد میں یہ طواف کی مستقل سنت بن گئی۔ [صحيح البخاري: 1508- صحيح مسلم: 2610]
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 505
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3055
ابو طفیل بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا، بتلائیے کیا بیت اللہ کے تین چکروں میں رمل کرنا، اور چار چکروں میں چلنا، کیا سنت ہے؟ کیونکہ آپ کی قوم اس کو سنت خیال کرتی ہے، انہوں نے جواب دیا، وہ ٹھیک بھی کہتے ہیں اور غلط بھی، میں نے پوچھا، آپ کے قول (صَدَقُوْا وَ كَذَبُوْا)[صحيح مسلم، حديث نمبر:3055]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: طواف عمرہ اور طواف قدوم میں، پہلے تین چکروں میں حجر اسود سے حجر اسود تک رمل (مونڈھے ہلاتے ہوئے آہستہ آہستہ دوڑنا، جمہور جن میں ائمہ اربعہ شامل ہیں کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اس لیے مسنون ہے لیکن رمل اور اضطباع صرف مردوں کے لیے ہے عورتوں کے لیے نہیں ہے۔ اس کے آغاز کاسبب وہی ہے جو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا ہے لیکن جب یہ مشرکین کو دکھانے کے لیے کہا گیا تھا تو اس وقت حجر اسود سے رکن یمانی تک کیا گیا آ گے رکن یمانی سے حجر اسود تک نہیں کیا گیا۔ گویا چکر مکمل نہیں تھا بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر حجر اسود سے حجر اسود تک رمل فرمایا تھا اس لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مؤقف صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہ اور ائمہ میں سے کسی نے قبول نہیں کیا ہاں بعض تابعین مثلاً طاؤس۔ عطاء۔ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہم اور سعید بن جبیر وغیرہم کے نزدیک رمل حجر اسود سے رکن یمانی تک ہے اسی طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ کہنا کہ جولوگ صفا اورمروہ کے درمیان سعی سوار ہو کر سنت سمجھتے ہیں وہ سچے بھی ہیں اور جھوٹے بھی تو اس کا مقصد یہ ہے کہ عام طور پر سعی پیدل چل کر ہی کی جاتی ہے۔ اور یہی افضل ہے۔ لیکن کسی عذر یا ضرورت کے لیے سوار ہو کرکر لینا بھی سنت ہے۔ لیکن سنت عام قرار دینا درست نہیں ہے۔