الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كِتَاب الْمَنَاسِكِ
کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
27. باب كَيْفَ التَّلْبِيَةُ
27. باب: تلبیہ (لبیک کہنے) کا بیان۔
حدیث نمبر: 1813
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ التَّلْبِيَةَ مِثْلَ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: وَالنَّاسُ يَزِيدُونَ ذَا الْمَعَارِجِ وَنَحْوَهُ مِنَ الْكَلَامِ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْمَعُ فَلَا يَقُولُ لَهُمْ شَيْئًا.
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھا، پھر انہوں نے تلبیہ کا اسی طرح ذکر کیا جیسے ابن عمر کی حدیث میں ہے اور کہا: لوگ (اپنی طرف سے اللہ کی تعریف میں) «ذا المعارج» اور اس جیسے کلمات بڑھاتے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سنتے تھے لیکن آپ ان سے کچھ نہیں فرماتے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1813]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/المناسک 15 (2919) (کلاھما بدون قولہ: ’’والناس یزیدون الخ)، (تحفة الأشراف: 2604)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الحج 19(1540) (في سیاق حجة النبي صلی اللہ علیہ وسلم الطویل) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خاموشی اور سکوت تلبیہ کے مخصوص الفاظ پر اضافہ کے جواز کی دلیل ہے، اگرچہ افضل وہی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً ثابت ہے اور جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مداومت کی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
صححه ابن خزيمة (2626 وسنده صحيح)

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1813 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1813  
1813. اردو حاشیہ:
➊ حج اور عمرہ میں تلبیہ کہناسنت مؤکدہ ہے اگر کوئی اسے ترک کر دے گا تو سنت کے اجر و ثواب سےمحروم رہے گا۔جبکہ بعض ائمہ اسے واجب کہتے ہیں۔اسی لیے اس کے ترک پر ان کےنزدیک دم (قربانی)واجب ہے۔تاہم یہ دوسرا موقف صحیح نہیں لگتا اس لیے کہ ترک تلبیہ سے کسی رکن کاترک لازم نہیں آتا اس لیے اوکان حج کی ادائیگی تلبیے کے قائم مقام ہو جائے گی۔تلبیہ کے الفاظ میں افضل یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اپنے الفاظ ہی پر اکتفا واقتصار کیا جائے کیونکہ آپ نے انہی ب‎پر مداو مت اختیار فرمائی ہے۔ تاہم اگر کوئی (صحیح المعنی الفاظ کا) اضافہ کرے تو بھی مباح ہے کیونکہ نبی ﷺ نے بعض صحابہ کو مختلف الفاظ سے تلبیہ پکارتے سناتو آپ خاموش رہے اور انکار نہیں فرمایا۔(عون المعبود)
➋ یہ جلیل الشان کلمہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی تمام انواع پر مشتمل ہے۔یعنی توحید الوہیت توحید ربوبیت اورتوحید اسماء و صفات۔اور بندہ اس کے تکرار سےاپنی عبدیت کا اظہار کرتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1813