الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كِتَاب الْمَنَاسِكِ
کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
26. باب الرَّجُلِ يَحُجُّ عَنْ غَيْرِهِ
26. باب: حج بدل کا بیان۔
حدیث نمبر: 1810
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، وَمُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بِمَعْنَاهُ قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ، عَنْ أَبِي رَزِينٍ، قَالَ حَفْصٌ فِي حَدِيثِهِ: رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَامِرٍ، أَنْهِ قَال: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ لَا يَسْتَطِيعُ الْحَجَّ وَلَا الْعُمْرَةَ وَلَا الظَّعْنَ، قَالَ:" احْجُجْ عَنْ أَبِيكَ وَاعْتَمِرْ".
ابورزین رضی اللہ عنہ بنی عامر کے ایک فرد کہتے ہیں میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے والد بہت بوڑھے ہیں جو نہ حج کی طاقت رکھتے ہیں نہ عمرہ کرنے کی اور نہ سواری پر سوار ہونے کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے والد کی جانب سے حج اور عمرہ کرو۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1810]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الحج 87 (930)، سنن النسائی/الحج 2 (2622)، 10 (2638)، سنن ابن ماجہ/المناسک 10 (2906)، (تحفة الأشراف: 11173)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/10، 11، 12) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
مشكوة المصابيح (2528)
أخرجه الترمذي (930 وسنده صحيح) والنسائي (2622 وسنده صحيح) وابن ماجه (2906 وسنده صحيح) وصححه ابن خزيمة (3040)

   جامع الترمذيحج عن أبيك واعتمر
   سنن أبي داوداحجج عن أبيك واعتمر
   سنن ابن ماجهحج عن أبيك واعتمر
   سنن النسائى الصغرىحج عن أبيك واعتمر
   سنن النسائى الصغرىحج عن أبيك واعتمر

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1810 کے فوائد و مسائل
  الشيخ ابن الحسن محمدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 1810  
فوائد و مسائل:
اس حدیث کے راویوں کے بارے میں:
◈ امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «كلهم ثقات.» یہ سارے کے سارے ثقہ ہیں۔ [سنن الدار قطني:183/2]
◈ اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن صحیح، جبکہ:
◈ امام ابن جارود [500]، امام ابن خزیمہ [3040] اور امام ابن حبان [991] رحمہم اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
◈ امام حاکم رحمہ اللہ [481/1] نے امام بخاری و امام مسلم رحمہما اللہ کی شرط پر صحیح کہا ہے۔
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
◈ اس حدیث کے تحت امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وإنما ذكرت العمرة عن النبى صلى الله عليه وسلم فى هذا الحديث ان يعتمر الرجل عن غيره.»
اس حدیث میں عمرہ کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ کوئی شخص دوسرے کی طرف سے اس کی ادائیگی کر سکتا ہے۔
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 72، حدیث/صفحہ نمبر: 48   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1810  
1810. اردو حاشیہ:
➊ ماں باپ سفر وغیرہ سے عاجز ہوں اور حج ان پر فرض ہوتا ہو تو اولاد کو چاہیے کہ ان کی طرف سے حج بدل کرے۔
➋ اس حدیث سےیہ بھی استدلال کیا گیا ہے کہ حج کی طرح عمرہ بھی واجب ہے۔ امام احمد ﷫ سےمنقول ہے کہ عمرہ کے واجب ہونے میں اس سے بڑھ کر عمدہ اور صحیح حدیث کوئی اور نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1810   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2622  
´عمرہ کے واجب ہونے کا بیان۔`
ابورزین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے والد بوڑھے ہیں، نہ حج کر سکتے ہیں نہ عمرہ اور نہ سفر؟ آپ نے فرمایا: اپنے والد کی طرف سے تم حج و عمرہ کر لو ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2622]
اردو حاشہ:
(1) عمرے کا وجوب مختلف فیہ مسئلہ ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ اور دوسرے محدثین، مثلاً: امام شافعی اور امام احمد رحمہ اللہ  حج کی طرح عمرے کو واجب سمجھتے ہیں کیونکہ اس حدیث میں حج اور عمرے کا اکٹھا ذکر ہے۔ قرآن مجید میں بھی وہ اکٹھے مذکور ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ﴾  (البقرة: 196) حج اور عمرہ اللہ تعالیٰ کے لیے مکمل کرو۔ لہٰذا دونوں فرض ہیں۔ مگر احناف اور مالکی حضرات عمرے کو نفل سمجھتے ہیں کیونکہ نبیﷺ نے ارکان اسلام بتاتے وقت حج کا ذکر فرمایا ہے عمرے کا نہیں۔ لیکن یہ دلیل انتہائی کمزور ہے کیونکہ دیگر بہت سے ایسے فرائض وواجبات ہیں جن کی حیثیت ارکان کی نہیں اور نہ وہ اس حدیث کے تحت ذکر ہی ہوئے ہیں جبکہ حقیقت میں وہ واجب ہی ہیں، لہٰذا اس سے ان کی عدم فرضیت یا عدم وجوب لازم نہیں آتا، نیز دونوں کے اعمال ومناسک کا بھی خاصا فرق ہے۔ جب فرق ہے تو ایک کے اس حدیث میں ذکر نہ ہونے سے کیا ہوتا ہے۔
(2) جو شخص مالی طاقت رکھتا ہو مگر جسمانی طور پر معذور ہو تو وہ کسی کو اپنی جگہ حج کے لیے بھیجے۔ اسی طرح جس شخص پر حج فرض ہو مگر ادائیگی کے بغیر فوت ہوگیا ہو تو اس کی طرف سے اس کے ورثاء حج کریں یا کسی کو بھیجیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2622   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2638  
´طاقت نہ رکھنے والے شخص کی طرف سے عمرہ کرنے کا بیان۔`
ابورزین عقیلی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے والد بہت بوڑھے ہیں، نہ وہ حج و عمرہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں، اور نہ ہی سواری پر چڑھ سکتے ہیں، آپ نے فرمایا: تم اپنے والد کی طرف سے حج و عمرہ کر لو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2638]
اردو حاشہ:
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عمرہ بھی فرض ہے۔ تبھی بیٹے کو عمرہ کرنے کا بھی حکم دیا الا یہ کہ کہا جائے کہ عمرہ، نذر وغیرہ کی بنا پر بھی تو واجب ہو سکتا ہے۔ مگر یہاں نذر کا ادنیٰ ترین اشآرہ بھی نہیں ہے بلکہ حج اور عمرے کو ایک ساتھ ذکر کرنا اور جسمانی معذوری کا عذر کرنا دونوں کو ایک ہی حیثیت دیتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور جمہور اہل علم فرضیت ہی کے قائل ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: 23/ 293) 
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2638   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2906  
´معذور شخص کی طرف سے حج بدل کرنے کا بیان۔`
ابورزین عقیلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے: اللہ کے رسول! میرے والد بہت بوڑھے ہیں جو نہ حج کرنے کی طاقت رکھتے ہیں نہ عمرہ کرنے کی، اور نہ سواری پر سوار ہونے کی (فرمائیے! ان کے متعلق کیا حکم ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے والد کی طرف سے حج اور عمرہ کرو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2906]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اگر انتہائی بوڑھے آدمی کے پاس سفر حج مہیا ہو تو اس پر بھی حج فرض ہوجاتا ہے۔

(2)
جو شخص بڑھاپے کی وجہ سے سفر نہ کرسکتا ہوتو اس کی طرف سے حج بدل کرنا چاہیے۔

(3)
عمرے میں بھی نیابت درست ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2906